كتاب برگزيده:
جستجو در کتابخانه مهدوی:
بازدیده ترینها
کتاب ها شگفتی ها و عجایب دنیا در بعد از ظهور امام زمان (علیه السلام) (نمایش ها: ۹۷,۵۱۱) کتاب ها داستانهایی از امام زمان (عجل الله فرجه) (نمایش ها: ۹۶,۸۵۳) کتاب ها نشانه هایی از دولت موعود (نمایش ها: ۷۴,۶۵۹) کتاب ها میر مهر - جلوه های محبت امام زمان (عجل الله فرجه) (نمایش ها: ۶۰,۱۸۷) کتاب ها یکصد پرسش وپاسخ پیرامون امام زمان (علیه السلام) (نمایش ها: ۵۴,۸۰۷) کتاب ها سیمای مهدی موعود (عجل الله فرجه) در آیینه شعر فارسی (نمایش ها: ۵۴,۲۲۹) کتاب ها زمينه سازان انقلاب جهانى حضرت مهدى (نمایش ها: ۴۵,۵۳۲) کتاب ها تأملی در نشانه های حتمی ظهور (نمایش ها: ۴۴,۶۶۸) کتاب ها موعود شناسی و پاسخ به شبهات (نمایش ها: ۴۱,۲۰۸) کتاب ها مهدی منتظر (عجل الله فرجه) (نمایش ها: ۳۸,۷۹۰)
 صفحه اصلى » كتابخانه مهدوى » اوصاف المهدی (علیه السلام)
كتابخانه مهدوى

کتاب ها اوصاف المهدی (علیه السلام)

بخش بخش: كتابخانه مهدوى الشخص نویسنده: احمد سعیدی تاريخ تاريخ: ۲۰ / ۲ / ۱۴۰۰ هـ.ش نمایش ها نمایش ها: ۳۴۴۵ نظرات نظرات: ۰

اوصاف المهدی (علیه السلام)
در بیان اسامی، القاب، اوصاف و کنیه های امام زمان (علیه السلام)

احمد سعیدی
ناشر: قم - مسجد مقدس جمکران ۱۳۸۶

فهرست

مقدمه ناشر
مقدمه مؤلف
چند نکته:
۱ - آیت:
۲ - اباصالح:
۳ - ابن احمد:
۴ - ابن الائمّه الطاهرین:
۵ - ابن الائمّه المعصومین:
۶ - ابن الاعلام الباهِره:
۷ - ابن الانوار الزّاهِره:
۸ - ابن الحسن:
۹ - ابن الحسین:
۱۰ - ابن العِترَه الطّاهره:
۱۱ - ابن النّبی:
۱۲ - ابن اولیاء الله:
۱۳ - ابن بنت نبی الله:
۱۴ - ابن خدیجه:
۱۵ - ابن خِیرَه الاماء:
۱۶ - ابن علی:
۱۷ - ابن فاطمه:
۱۸ - ابوابراهیم:
۱۹ - ابوالقاسم:
۲۰ - ابوبکر:
۲۱ - ابوتراب:
۲۲ - ابوجعفر:
۲۳ - أبو عبد الله:
۲۴- ابومحمّد:
۲۵ - احسان:
۲۶ - احمد:
۲۷ - اُذُن سامِعه:
۲۸ - اصل:
۲۹ - إمام:
۳۰ - امام الانس والجان:
۳۱ - امام المنتظَر:
۳۲ - امام المؤمنین:
۳۳ - امام ثانی عشر:
۳۴ - امام زمان:
۳۵ - امامنا:
۳۶ - امام هادی:
۳۷ - امام مهدی:
۳۸ - امام همه خلایق:
۳۹ - امام الّذی یفوز بِه المؤمنون:
۴۰ - امام الذی یهلک علی یدیه الکافرون:
۴۱ - اَمان:
۴۲ - امر الله:
۴۳ - امیر:
۴۴ - امیر الامَره:
۴۵ - امین:
۴۶ - اوقیدمو:
۴۷ - اَیدی:
۴۸ - ایزدشناس - ایزدنشان:
۴۹ - ایستاده:
۵۰ - باب الله:
۵۱ - بابُ المَقام:
۵۲ - باسط:
۵۳ - باطن:
۵۴ - بِئْر مُعَطَّله:
۵۵ - بَحْر القَمْقام:
۵۶ - بَدْرالتَّمام:
۵۷ - بَرکت الله:
۵۸ - برهان الله:
۵۹ - بقیه الله:
۶۰ - بقیه الله فی ارضه:
۶۱ - بقیه الله فی بِلاده:
۶۲ - بقیه الانبیاء:
۶۳ - بقیه الاخیار:
۶۴ - بَلَدُ الأمین:
۶۵ - بنده یزدان:
۶۶ - بَوار الکافرین:
۶۷ - بَوار اَعْدائِه:
۶۸ - بهرام:
۶۹ - پرویز (یا برویز):
۷۰ - پسر إنسان:
۷۱ - تالی کتاب الله:
۷۲ - تأیید:
۷۳ - ترجُمان کتاب الله:
۷۴ - تقی:
۷۵ - تِلاد نِعَم:
۷۶ - تمام:
۷۷ - ثائر:
۷۸ - ثائِر بِأمْرک:
۷۹ - ثابت:
۸۰ - ثار الله:
۸۱ - جابر:
۸۲ - جامِعُ الکَلِم:
۸۳ - جامِعُ الکَلِمه:
۸۴ - جانب:
۸۵ - جَحْجاحِ المُجاهد:
۸۶ - جعفر:
۸۷ - جمعه:
۸۸ - جَنْبُ الله:
۸۹ - جَوارِ الکُنَّس:
۹۰ - حاشر:
۹۱ - حاصد:
۹۲ - حاضر:
۹۳ - حافظ:
۹۴ - حامد:
۹۵ - حِجاب الله:
۹۶ - حِجاج:
۹۷ - حجّت:
۹۸ - حُجَّه الغائب:
۹۹ - حُجَّه القائم:
۱۰۰ - حُجَّه المَعْبود:
۱۰۱ - حُجَّهِ بْنِ الحسن:
۱۰۲ - حجه الله:
۱۰۳ - حجه الْخِصام:
۱۰۴ - حجه ربِّ العالمین:
۱۰۵ - حقّ:
۱۰۶ - حلیم:
۱۰۷ - حمد:
۱۰۸ - حی:
۱۰۹ - خائف:
۱۱۰ - خاتم الائمّه:
۱۱۱ - خاتم الاوصیاء:
۱۱۲ - خازن:
۱۱۳ - خالص (یا خالصه الله):
۱۱۴ - خجسته:
۱۱۵ - خداشناس:
۱۱۶ - خسرو:
۱۱۷ - خَلَف:
۱۱۸ - خَلَف الباقی:
۱۱۹ - خَلَف الحسن:
۱۲۰ - خَلف سَلَف:
۱۲۱ - خلف صالح:
۱۲۲ - خلیفه:
۱۲۳ - خلیفه الله:
۱۲۴ - خلیفه الاتقیا:
۱۲۵ - خلیل:
۱۲۶ - خُنَّس:
۱۲۷ - خَوّاض الْغَمَرات:
۱۲۸ - خَیر:
۱۲۹ - خَیر مَنْ تَقَمَّص وَارْتَدی:
۱۳۰ - خِیرَهُ الله:
۱۳۱ - دابَّهُ الأرض:
۱۳۲ - داعی:
۱۳۳ - دافِع البلا:
۱۳۴ - دلیل:
۱۳۵ - دَیان:
۱۳۶ - دین المَأثُور:
۱۳۷ - ذات انتقام الله:
۱۳۸ - ذوالْبِرّ:
۱۳۹ - ذوالتَّقْوی:
۱۴۰ - ذوالْحِلْم:
۱۴۱ - ذوالسَّیف:
۱۴۲ - ذوالفقار:
۱۴۳ - راهنما:
۱۴۴ - رَبّانی:
۱۴۵ - رَبُّ الأرض:
۱۴۶ - رَبِیعُ الانام:
۱۴۷ - رَجاء الأُمّه:
۱۴۸ - رجل:
۱۴۹ - رحمت واسعه:
۱۵۰ - رشید:
۱۵۱ - رضی:
۱۵۲ - رُکن الاَنام:
۱۵۳ - رکن الایمان:
۱۵۴ - زکی:
۱۵۵ - زند افریس:
۱۵۶ - سابق:
۱۵۷ - ساعه:
۱۵۸ - سبب المُتَّصل:
۱۵۹ - سَبْعُ الْمَثانی:
۱۶۰ - سبیل الله:
۱۶۱ - سِتْرَ الله:
۱۶۲ - سِدْرَهُ الْمُنْتَهی:
۱۶۳ - سدید:
۱۶۴ - سِراج الله:
۱۶۵ - سِرّ الله:
۱۶۶ - سروش ایزد:
۱۶۷ - سَفینهُ النّجاه:
۱۶۸ - سُلالهُ النُّبوَه:
۱۶۹ - سلطان مأمول:
۱۷۰ - سناء:
۱۷۱ - سید:
۱۷۲ - سید الاُمَّه:
۱۷۳ - سید الخلق:
۱۷۴ - سیدنا:
۱۷۵ - سید هُمام:
۱۷۶ - سیفُ الشّاهِر:
۱۷۷ - سیفُ الله:
۱۷۸ - شافع:
۱۷۹ - شاهد:
۱۸۰ - شَرید:
۱۸۱ - شریک القرآن:
۱۸۲ - شَکور:
۱۸۳ - شماطیل:
۱۸۴ - شَمس الشُّموس:
۱۸۵ - شَمس الطّالِعه:
۱۸۶ - شَمس الظَّلام:
۱۸۷ - شهاب الثاقب:
۱۸۸ - صابر:
۱۸۹ - صاحب:
۱۹۰ - صاحب الاَمر:
۱۹۱ - صاحب الدّار:
۱۹۲ - صاحب الدَّولهُ الزَّهراء:
۱۹۳ - صاحب الدُّهور:
۱۹۴ - صاحب الدِّین:
۱۹۵ - صاحب الرّایات:
۱۹۶ - صاحب الرّجعه:
۱۹۷ - صاحب الزّمان:
۱۹۸ - صاحب السَّیف:
۱۹۹ - صاحب الشَّرَف:
۲۰۰ - صاحب الصَّمْصام:
۲۰۱ - صاحب الضِّیاء:
۲۰۲ - صاحب العصر:
۲۰۳ - صاحب العُصُور:
۲۰۴ - صاحب الغیبه:
۲۰۵ - صاحب الکتاب المَنْشُور:
۲۰۶ - صاحب الکَرَّه الْبَیضاء:
۲۰۷ - صاحب اللِّواء:
۲۰۸ - صاحب النّاحیه:
۲۰۹ - صاحب النّور:
۲۱۰ - صاحب یوم الفتح:
۲۱۱ - صادق:
۲۱۲ - صالح:
۲۱۳ - صبح مُسْفِر:
۲۱۴ - صدْر الخلائق:
۲۱۵ - صدق:
۲۱۶ - صراط:
۲۱۷ - صَمْصام اکبر:
۲۱۸ - صَمْصام منتقم:
۲۱۹ - ضُحی:
۲۲۰ - ضرغامه:
۲۲۱ - ضیاء:
۲۲۲ - ضیاءُ الاَنوَر:
۲۲۳ - طالب:
۲۲۴ - طالب التُّراث:
۲۲۵ - طامس:
۲۲۶ - طاووس اهل الجنه:
۲۲۷ - طاهر:
۲۲۸ - طَرید:
۲۲۹ - طَلْعَه الرَّشیده:
۲۳۰ - طَیب:
۲۳۱ - ظاهر الحجّه:
۲۳۲ - ظفر:
۲۳۳ - ظَهْر:
۲۳۴ - عابد:
۲۳۵ - عائِذ:
۲۳۶ - عاقبهُ الدّار:
۲۳۷ - عالِم:
۲۳۸ - عبد الله:
۲۳۹ - عدل:
۲۴۰ - عَدل المُشْتَهر:
۲۴۱ - عدل المنتظَر:
۲۴۲ - عذاب اکبر:
۲۴۳ - عِزّ الموحّدین:
۲۴۴ - عزّت (و عزیز):
۲۴۵ - عصر:
۲۴۶ - عِصْمَهُ الدِّین:
۲۴۷ - عِصْمَهُ العباد:
۲۴۸ - عَقِیدُ العِزّ:
۲۴۹ - عَلامت:
۲۵۰ - عِلْم المَصْبُوب:
۲۵۱ - عَلَم المَنْصوب:
۲۵۲ - عَلَم النُّور:
۲۵۳ - عَلَم الهُدی:
۲۵۴ - عِماد:
۲۵۵ - عمادُ الإسلام:
۲۵۶ - عَیبَهِ الله:
۲۵۷ - عین:
۲۵۸ - عین الله:
۲۵۹ - عینُ الله النّاظِره:
۲۶۰ - عینُ الحَیاه:
۲۶۱ - غائب:
۲۶۲ - غاشیه:
۲۶۳ - غایهُ الطّالبین:
۲۶۴ - غایهُ القُصوی:
۲۶۵ - غایهُ النُّور:
۲۶۶ - غُرَّهُ الحَمِیدَه:
۲۶۷ - غریب:
۲۶۸ - غریم:
۲۶۹ - غلام:
۲۷۰ - غَلیل:
۲۷۱ - غَوْث:
۲۷۲ - غَوْثُ الفقراء:
۲۷۳ - غیب:
۲۷۴ - فائز:
۲۷۵ - فاتح:
۲۷۶ - فاتق:
۲۷۷ - فاضل:
۲۷۸ - فتح:
۲۷۹ - فجر:
۲۸۰ - فرج:
۲۸۱ - فرج آل محمّد:
۲۸۲ - فرج اعظم:
۲۸۳ - فرج مؤمنان:
۲۸۴ - فرخنده:
۲۸۵ - فرد:
۲۸۶ - فردوس اکبر:
۲۸۷ - فرید:
۲۸۸ - فِطرهُ الاَنام:
۲۸۹ - فقید:
۲۹۰ - فقیه:
۲۹۱ - فَلّاق الهام:
۲۹۲ - فیذموا:
۲۹۳ - فیروز:
۲۹۴ - قائم:
۲۹۵ - قائم آل محمّد:
۲۹۶ - قائم الزّمان:
۲۹۷ - قائم به امر الله:
۲۹۸ - قائم به قسط:
۲۹۹ - قائم مقام:
۳۰۰ - قابض:
۳۰۱ - قاتلُ الکَفَرَه:
۳۰۲ - قاصم:
۳۰۳ - قاطع:
۳۰۴ - قسط:
۳۰۵ - قَصر مَشید:
۳۰۶ - قُطب:
۳۰۷ - قَمَر الزّاهر:
۳۰۸ - قوام:
۳۰۹ - قوّه:
۳۱۰ - قیامت:
۳۱۱ - قَیم الزّمان:
۳۱۲ - کارّ:
۳۱۳ - کاشِفُ البَلوی:
۳۱۴ - کاشفُ الغِطاء:
۳۱۵ - کتاب مستور:
۳۱۶ - کتاب مسطور:
۳۱۷ - کرّار:
۳۱۸ - کریم:
۳۱۹ - کلمه الله:
۳۲۰ - کلمه الحق:
۳۲۱ - کلمه المحمود:
۳۲۲ - کلمه باقیه:
۳۲۳ - کمال:
۳۲۴ - کوکما:
۳۲۵ - کهف:
۳۲۶ - کیقباد دوم:
۳۲۷ - لا شبیه له:
۳۲۸ - لسانُ الصِّدق:
۳۲۹ - لسان الله:
۳۳۰ - لندیطارا:
۳۳۱ - لوای اعظم:
۳۳۲ - ماءِ مَعین:
۳۳۳ - ماشع:
۳۳۴ - مالک:
۳۳۵ - مأمور:
۳۳۶ - مأمول:
۳۳۷ - مأمون:
۳۳۸ - مَبانی الآیات:
۳۳۹ - مُبْدِءُ الآیات:
۳۴۰ - مُبطِل:
۳۴۱ - مُبْلَی السَّرائر:
۳۴۲ - مُبید:
۳۴۳ - مُبِیر الکافرین:
۳۴۴ - مُترقّب:
۳۴۵ - مُجاب:
۳۴۶ - مجازی بِالاَعمال:
۳۴۷ - مجاهد:
۳۴۸ - مجتهد:
۳۴۹ - مُجدّد:
۳۵۰ - مُجَلَّی الظّلمه:
۳۵۱ - مُجَلَّی العَمی:
۳۵۲ - مجهول:
۳۵۳ - مُحْتَجَب:
۳۵۴ - محسن:
۳۵۵ - محفوظ:
۳۵۶ - محقّق:
۳۵۷ - محمّد:
۳۵۸ - محیط:
۳۵۹ - مُحیی:
۳۶۰ - مُحیی المؤمنین:
۳۶۱ - مُخبِر:
۳۶۲ - مَخزون:
۳۶۳ - مِدار الدَّهر:
۳۶۴ - مدبّر:
۳۶۵ - مُدَّخر:
۳۶۶ - مُدیل:
۳۶۷ - مُذکّر:
۳۶۸ - مُذلّ:
۳۶۹ - مُرابط:
۳۷۰ - مُرتَجی:
۳۷۱ - مُرْتَقِب:
۳۷۲ - مرشد:
۳۷۳ - مَرضی:
۳۷۴ - مُزِیل الهَمّ:
۳۷۵ - مُستأصِل:
۳۷۶ - مستتر:
۳۷۷ - مُستَنصر:
۳۷۸ - مُسْتَودع الحکمه:
۳۷۹ - مستور:
۳۸۰ - مَسیح الزّمان:
۳۸۱ - مُشْتَهَر:
۳۸۲ - مشهود:
۳۸۳ - مُشید:
۳۸۴ - مِصْباحُ الدُّجی:
۳۸۵ - مصباح شدید الضّیاء:
۳۸۶ - مَصْدَرُ الأُمور:
۳۸۷ - مُضْطَر:
۳۸۸ - مُطاع:
۳۸۹ - مُطَهَّر:
۳۹۰ - مُطَهِّر الأرض:
۳۹۱ - مُظَفَّر:
۳۹۲ - مُظَفَّر بِالسَّعاده:
۳۹۳ - مَظلوم:
۳۹۴ - مُظْهِرُ الایمان:
۳۹۵ - مُظْهِرُ الحقّ:
۳۹۶ - مُظْهِر الْفَضائح:
۳۹۷ - مَعاذ:
۳۹۸ - مُعَبِّر:
۳۹۹ - مُعتصم:
۴۰۰ - مُعَدّ:
۴۰۱ - مَعدن العلوم:
۴۰۲ - مُعِزّ:
۴۰۳ - معصوم:
۴۰۴ - مُعلِن:
۴۰۵ - مُعِیدُ الإسلام:
۴۰۶ - مُغَیب:
۴۰۷ - مِفتاح الکلام:
۴۰۸ - مُفَرَّج اعظم:
۴۰۹ - مُفَرّج الْکَرْب:
۴۱۰ - مُفَرّج الْکُرُبات:
۴۱۱ - مَفْزَع:
۴۱۲ - مُفْضِل:
۴۱۳ - مُقْتَصِر:
۴۱۴ - مَقْدُرَه:
۴۱۵ - مُقدَّم:
۴۱۶ - مَلاذ:
۴۱۷ - مُلَقِّن احکام:
۴۱۸ - ملک:
۴۱۹ - مَنّان:
۴۲۰ - مِنْ اولاد الکرام:
۴۲۱ - مُنْتَصر:
۴۲۲ - منتظَر:
۴۲۳ - منتظِر:
۴۲۴ - منتقم:
۴۲۵ - منصور:
۴۲۶ - مُنْعِم:
۴۲۷ - مُنَفّس الحَسرات:
۴۲۸ - مُنْقِذُ الأُمّه:
۴۲۹ - مُنِیر الحَقّ:
۴۳۰ - مُنْیهُ الصّابرین:
۴۳۱ - موتور:
۴۳۲ - موجود:
۴۳۳ - موعود:
۴۳۴ - موفّق:
۴۳۵ - مولا:
۴۳۶ - مُهْتَدی:
۴۳۷ - مهدی:
۴۳۸ - مهدی الأُمم:
۴۳۹ - مُهَذَّب:
۴۴۰ - مَهْمِیدُ الآخر:
۴۴۱ - میثاق الله:
۴۴۲ - میزان الحقّ:
۴۴۳ - مُؤتَمَن:
۴۴۴ - مُؤَلِّف الشَّمل:
۴۴۵ - مُؤَمَّل:
۴۴۶ - مُؤَید:
۴۴۷ - ناحیه مقدسه:
۴۴۸ - نازح:
۴۴۹ - ناشر العدل:
۴۵۰ - ناشر رایه الهُدی:
۴۵۱ - ناصح:
۴۵۲ - ناصر:
۴۵۳ - ناطق:
۴۵۴ - ناظر:
۴۵۵ - ناقور:
۴۵۶ - ناموس العصر:
۴۵۷ - نَجْم:
۴۵۸ - نصر:
۴۵۹ - نَضْرَهُ الایام:
۴۶۰ - نظام الدین:
۴۶۱ - نِعْمَه الباطنه:
۴۶۲ - نفس:
۴۶۳ - نقی:
۴۶۴ - نقیب:
۴۶۵ - نور:
۴۶۶ - نور آل محمّد(علیهم السلام):
۴۶۷ - نُور اَبصار الوَری:
۴۶۸ - نُور الاتقیاء:
۴۶۹ - نُور الأرض:
۴۷۰ - نُور الاصفیاء:
۴۷۱ - نور الانوار:
۴۷۲ - نور الباهر:
۴۷۳ - نور الله:
۴۷۴ - نور الهُدی:
۴۷۵ - نهار:
۴۷۶ - وارث:
۴۷۷ - وارث الانبیاء:
۴۷۸ - وارث المرسلین:
۴۷۹ - وارث ذوالفقار:
۴۸۰ - واقیذ:
۴۸۱ - وَتْر:
۴۸۲ - وِتْر:
۴۸۳ - وَجْه الله:
۴۸۴ - وَجیه:
۴۸۵ - وحید:
۴۸۶ - وصی:
۴۸۷ - وَصِی الاوصیاء:
۴۸۸ - وَصِی الحسن:
۴۸۹ - وَصِی بن الاوصیاء:
۴۹۰ - وَعْدَ الله:
۴۹۱ - وِقایه الله:
۴۹۲ - ولی:
۴۹۳ - ولی الاحکام:
۴۹۴ - ولی الله:
۴۹۵ - ولی المؤمنین:
۴۹۶ - ولی النّاصح:
۴۹۷ - ولی امر:
۴۹۸ - ولی عصر:
۴۹۹ - وهوه ل:
۵۰۰ - هادِم الشّرک:
۵۰۱ - هادی:
۵۰۲ - هادی معصوم:
۵۰۳ - یدُ الباسِطه:
۵۰۴ - یعْسُوبُ الدّین:
۵۰۵ - یعْسُوبُ الْمُتّقین:
۵۰۶ - یمین:
۵۰۷ - یوسف زهرا:
۵۰۸ - یوم الدّین:
۵۰۹ - یوم الموعود:
۵۱۰ -........... !؟

مقدمه ناشر

پیرامون اسامی، القاب، اوصاف و کنیه های حضرت مهدی صاحب الزمان (عجل الله تعالی فرجه الشریف) کتاب ها و جزوه هایی تاکنون تألیف و تحقیق و به زیور طبع آراسته گردیده ولی در بررسی ها به این نتیجه رسیدیم که کتاب کامل و جامعی وجود ندارد لذا برآن شدیم تا اثر پیش روی شما ارادتمند و مشتاق ظهور حضرت مهدی (علیه السلام) که توسط برادر ارجمند حاج احمد سعیدی تألیف گردیده، به دست نشر بسپاریم امید است مورد رضایت حضرت حقّ و توجه مولانا صاحب الزمان (علیه السلام) واقع گردد.
از تمام عزیزان همکار به ویژه حضرت آیت الله وافی تولیت محترم مسجد مقدّس جمکران که مشوّق ما در نشر معارف اهل بیت (علیهم السلام) هستند کمال تشکر را داریم.

مدیر مسؤول انتشارات مسجد مقدس جمکران حسین احمدی

مقدمه مؤلف

بسم الله الرحمن الرحیم الحمد لله رب العالمین والصلوه والسلام علی رسوله محمّد خاتم النبیین وآله الطیبین الطاهرین لاسیما مولانا الامام المهدی ارواحنا فداه ولعنه الله علی اعدائهم اجمعین.
«او خواهد آمد» این موضوعی است که تمام انسان ها در تمام مکاتب و مذاهب به آن اعتقاد دارند، هر کسی با هر عقیده و مرامی، از هر دین و آئین و ملّتی معتقد است که روزی کسی خواهد آمد و وضع جهان را تغییر خواهد داد. امّا این که او کیست؟ نامش چیست؟ از چه دین و ملّتی است؟ پدرش کیست؟ کی خواهد آمد؟ موضوعاتی است که نظرات و اقوال مختلفی را به خود اختصاص داده است.
مذهب حقّه جعفری و مکتب شیعه اثنا عشری، بر اساس الهام از کلام وحی الهی و فرمان پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) عقیده اش بر این است که:
جانشینان پیامبر خاتم (صلی الله علیه وآله) دوازده نفرند، همه از نسل علی و فاطمه و از فرزندان حسین بن علی می باشند. دوازدهمین ایشان فرزند حسن بن علی بن محمّد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمّد بن علی بن الحسین و حسین نیز فرزند علی بن ابیطالب و زهرا دختر خاتم الانبیاست صلوات الله علیهم اجمعین.
ما معتقدیم امام دوازدهم در نیمه شعبان سال ۲۵۵ ه.ق متولد گردیده، دارای اسم و رسم مشخص می باشد و اکنون زنده و غایب است. تولد و زندگی امام دوازدهم بنابر مصلحت الهی، پنهانی بوده، اگرچه بسیاری از مردم؛ خصوصاً شیعیان خالص، آن حضرت را مشاهده کرده اند و در طول سالیان متمادی نیز هر موقع که نیاز بوده به دستگیری محتاجان و نیازمندان، عنایت فرموده است.
گفتیم «او» فرزند امام حسن عسکری (علیه السلام) و از نسل امام حسین و فرزند زهرا(علیهم السلام) می باشد، امّا این که اسم مبارکشان چیست؟ برای آن حضرت نام های متعدد و القاب گوناگون و کنیه های مختلفی بیان شده است.(۱)
هر کسی او را به اسمی می خواند؛ هر مذهبی او را به نامی صدا می زند؛ هر مکتبی لقبی بر او نهاده و هر ملت و شخصی او را به گونه ای توصیف نموده است.
بر این اساس عنایت و توفیقی حاصل شد تا به گردآوری نام ها و لقب ها و کنیه ها و توصیف های مختلفی که از آن حضرت شده بپردازم. به همین جهت به کتاب های متعددی که پیرامون زندگانی امام زمان (علیه السلام) نگاشته شده است مراجعه نمودم، هر کدام به مناسبت، تعدادی از اسامی و القاب آن حضرت را جمع آوری نموده، برخی به شرح و تفصیل آن پرداخته و برخی نیز فقط به ذکر نام و ترجمه آن اکتفا نموده بودند.
علاوه بر آن ها با مراجعه به کتب حدیث، دعا و زیارت، القاب و اوصاف بیشتری برای امام زمان (علیه السلام) مشاهده کردم که پس از مصدریابی و جست و جو از اصل و سند آن در کتب حدیثی، آن ها را به صورت مجموعه ای که اینک آماده شده است درآمد.
چند نکته:
۱ - روش ما در این کتاب بر این بود که فقط اسم و لقب و یا کنیه امام زمان (علیه السلام) یا توصیفی که برای آن حضرت شده است را ذکر کنیم، سپس ترجمه نموده، اگر آیه ای از قرآن کریم بر آن اشاره داشت بیاوریم، یا اگر حدیثی از امامان معصوم (علیهم السلام) صادر شده و یا بخشی از دعا و زیارتی که مخصوص آن حضرت است را نقل کنیم؛ یعنی حدّ وسط بین شرح و تفصیل مفصّل و ذکر نام و فقط ترجمه آن.
۲ - برخی از این اسامی و القاب، نام هایی است که پیامبر و امامان معصوم (علیهم السلام) برای امام زمان (علیه السلام) انتخاب کرده اند و برخی را دیگران؛ چه از علمای شیعه یا علمای اهل سنت؛ حتی برخی را پیروان سایر مذاهب و مکاتب و نیز کسانی که پیرو هیچ دین و آئینی نیستند، امام زمان و مهدی موعود (علیه السلام) را به این اسامی نامیده اند، لذا کسی ایراد نگیرد که چرا برخی نام ها را به عنوان اسم امام زمان (علیه السلام) تبلیغ کرده ایم، این ها عناوینی است که دیگران بنابر مرام و مقصود خودشان، به وسیله آن امام زمان (علیه السلام) و آن غایب از نظر و موعود منتظر را نام گذاری کرده اند.
۳ - از آنجا که گاه تفکیک اسم از لقب و یا توصیف مشکل به نظر می رسید، تمام آن ها را به صورت الفبایی منظم کرده ایم هرچند اگر هر کدام از اسم و لقب و کنیه و وصف جداگانه و در فصل مخصوص می آمد بهتر می نمود.
و اینک در ایام الله دهه مبارک فجر انقلاب اسلامی، یاد حضرت امام خمینی رحمه الله و شهدای گران قدر انقلاب اسلامی و دفاع مقدّس؛ خصوصاً همرزمان شهیدم: احمد قاسمیان، احمد صفاری، احمد آقایی، احمد نوروزی، احمد مقیمی و احمد خونجگری را گرامی داشته، برای طول عمر مقام معظم رهبری حضرت آیت الله خامنه ای مدّ ظله العالی و موفقیت نظام اسلامی دعا می کنیم.
در پایان از کلیه دوستانی که زمینه چاپ این اثر را فراهم نمودند؛ خصوصاً حجه الاسلام مجتبی حداد و برادران واحد پژوهش انتشارات مسجد مقدّس جمکران که در مراحل مختلف همکاری نمودند، قدردانی و تشکر می شود.

احمد سعیدی قم المقدسه
۲۲ بهمن ۱۳۸۵

۱ - آیت:
آیه به معنای علامت و نشانه است که در حدیثی امام صادق (علیه السلام) کلمه «آیت» در آیه شریفه «إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیهِم مِّنَ السَّماءِ آیهً فَظَلَّتْ أَعْناقُهُمْ لَها خاضِعِینَ»(۲) را به امام زمان (علیه السلام) تأویل نموده و فرموده است:
«تَخْضَعُ رِقابَهُمْ یعْنِی بَنِی اُمَیه وَ هِی الصَّیحَهُ مِنَ السَّماءِ بِاسْمِ الْقائِمِ...»(۳)
«امام زمان (علیه السلام) گردن آنان؛ یعنی بنی امیه را خاضع و خاشع خواهد کرد و آن صیحه ای از آسمان است که به نام قائم (علیه السلام) صدا خواهد کرد.»
۲ - اباصالح:
از معروف ترین کنیه های امام زمان (علیه السلام) اباصالح است که بیشتر در مواقع اضطرار و گم شدن در صحرا و بیابان یا گم گشتگی فکری و فرهنگی، آن حضرت را با این عنوان به استغاثه و یاری می طلبند و در شعرها و مدیحه سرایی ها نیز به کار می رود.(۴)
و از امام صادق (علیه السلام) نقل شده که فرموده است:
«اِذا ظَلْتَ عَنِ الطَّرِیقِ فَنادِ: یا صالِحُ اَوْ یا اَباصالِحِ أَرْشِدُونا اِلَی الطَّرِیقِ یرْحَمُکُمُ اللهُ»؛(۵)
«هرگاه از راهی گم شدید ندا کنید: ای صالح یا ای اباصالح ما را به راه هدایت کن، خدا شما را رحمت کند».
۳ - ابن احمد:
یعنی فرزند احمد؛ چون او فرزند پیامبر خاتم (صلی الله علیه وآله) است چنان که از همان ابتدا نوید داده: اَلْمَهدِی مِنْ وُلْدِی، مهدی از فرزندان من است.(۶) و همنام من است و احمد نام آسمانی پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) است؛ چنان که قرآن فرموده:
«وَإِذْ قالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیمَ یا بَنِی إِسْرائِیلَ إِنِّی رَسُولُ الله إِلَیکُم مُّصَدِّقاً لِّما بَینَ یدَی مِنَ التَّوْرَیاهِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یأْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمّا جَآءَهُم بِالْبَیناتِ قالُوا هذا سِحْرٌ مُّبِینٌ»(۷)
لذا پیامبر اعظم (صلی الله علیه وآله) فرموده است: مهدی آخرالزمان همنام و هم کنیه من است.
و در دعای ندبه نیز خطاب می کنیم:
«هَلْ إِلَیکَ یا بْنَ أَحْمَدَ سَبِیلٌ فَتُلْقی؛(۸)
«ای پسر احمد آیا به سوی تو راهی هست که ملاقات شوی!؟»
۴ - ابن الائمّه الطاهرین:
«او» هم خود امام است، هم فرزند امام و فرزند امامان معصوم است؛ او از نسل امامان و از نسل پاکان عالم است.
در زیارت مخصوص آن حضرت این عبارت آمده:
«... اَلامامُ الْمُنْتَظَرُ الْمَرْضِی الطّاهِرُ بْنُ الائِمَّهِ الطّاهِرِینَ...»؛(۹)
«... آن امام منتظر و مورد رضایت و پسندیده که پاک و طاهر است و فرزند امامان طاهر می باشد.»
و این هم قسمتی از زیارت وارث:
«أَشْهَدُ أَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْأَصْلابِ الشّامِخَهِ وَالْأَرْحامِ الْمُطَهَّرَهِ...».(۱۰)
گواهی و شهادت می دهم که تو نور بودی، در صلب های پاک وعالی پدران بودی، در رحم های پاک از مادران پاک و مطهّر بودی....
آری او فرزند چنین کسانی است؛ هم پدر پاک و هم مادر پاک و مطهّر که هیچ گونه آلودگی ظاهری و باطنی نداشتند و همه امام بوده اند.
۵ - ابن الائمّه المعصومین:
«او» امام معصوم و فرزند امامانی است که همه به مقام عصمت رسیدند و هادی خلق می باشند.(۱۱) چنان که درزیارت امام زمان (علیه السلام) آمده است:
«... اَلامامُ الْمُنْتَظَرُ الطّاهِرُ بْنُ الائِمَّهِ الْمَعْصُومِینَ...»؛(۱۲)
«... امام زمان (علیه السلام) آن امام منتظری است که پاک و طاهر است و فرزند امامان معصوم می باشد.»
۶ - ابن الاعلام الباهِره:
یعنی «او» فرزند شخصیت های بزرگ است.
که در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بْنَ الْأَعْلامِ الْباهِرَهِ»؛(۱۳)
«سلام بر تو ای فرزند مردان بزرگ و شخصیت های بارز عالم!»
۷ - ابن الانوار الزّاهِره:
«او» هم خود نور است و هم فرزند نورهای درخشان است، لذا این چنین به ایشان سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بْنَ الْأَنْوارِ الزّاهِرَهِ»؛(۱۴)
«سلام بر تو ای فرزند نورهای درخشان (از علم و ایمان)!»
۸ - ابن الحسن:
یعنی فرزند حسن؛ چون امام زمان (علیه السلام) فرزند امام حسن عسکری (علیه السلام) است؛ چنان که فریاد «یا بن الحسن» شیفتگان آن حضرت در همه جا به گوش می رسد.
لذا در زیارت آن جناب خطاب می کنیم:
«یا مَوْلای یا بْنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِی! جِئْتُکَ زآئِراً لَکَ وَلِأَبِیکَ وَجَدِّکَ»؛(۱۵)
«ای آقای من، ای فرزند امام حسن عسکری و فرزند امام علی النقی! من به زیارت تو آمده ام و به زیارت پدر و جدّ بزرگوارت».
۹ - ابن الحسین:
مهدی موعود نهمین فرزند امام حسین (علیه السلام) است که خبر آن را سال ها پیش از تولدش اعلان کرده بودند.
در حدیثی آمده است که پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) از حوادث آینده سخن می فرمود که یکی از فرزندان من قیام خواهد کرد، سلمان ایستاد و پرسید: از کدام فرزند شماست؟ فرمود: او از این فرزندم می باشد. و با دست بر امام حسین (علیه السلام) زد.(۱۶)
۱۰ - ابن العِترَه الطّاهره:
امام زمان و مهدی موعود (علیه السلام) از عترت پاک پیامبر(صلی الله علیه وآله) و از نسل فاطمه (علیها السلام) است، نه از نسل کسی دیگر و عترت پیامبر(صلی الله علیه وآله) پاک ترین نسل می باشند:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بْنَ الْعِتْرَهِ الطّاهِرَهِ»؛(۱۷)
«سلام بر تو ای فرزند عترت و اهل بیت پاک و طاهر پیامبر اکرم (علیهم السلام)!»
۱۱ - ابن النّبی:
به معنای فرزند پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله)؛ یعنی او هم جانشین رسول خداست و هم فرزند اوست؛ چنان که خود آن حضرت فرموده است:
«اَلْمَهدِی مِنْ وُلْدِی، إِسْمُهُ إِسْمِی، وَ کُنْیتُهُ کَنْیتِی، اَشْبَهُ النَّاسِ بِی خَلْقَاً وَخُلْقَاً...»؛(۱۸)
«مهدی فرزند من است، هم نام و هم کنیه من و شبیه ترین مردم به من در آفرینش و خلق و خوی است...».
۱۲ - ابن اولیاء الله:
امام زمان (علیه السلام)، هم فرزند اولیای الهی است و هم خود ولی الله است؛ لذا این گونه به آن حضرت سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا وَلِی الله وَابْنَ أَوْلِیآئِهِ»؛(۱۹)
«درود بر تو ای ولی خدا و ای کسی که فرزند اولیاء الله هستی».
و این نیز قسمتی از زیارت آل یاسین است:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی وَلِیکَ وَابْنِ أَوْلِیآئِکَ، الَّذِینَ فَرَضْتَ طاعَتَهُمْ»؛(۲۰)
«خدایا درود فرست بر ولی خودت و فرزند اولیائت، همانان که اطاعت از ایشان را بر همگان واجب کردی».
۱۳ - ابن بنت نبی الله:
یعنی «او» فرزند دختر خاتم الانبیاست.
در دعای عهد با امام زمان (علیه السلام) که به فرمایش امام صادق (علیه السلام) اگر کسی چهل صبح آن را بخواند از یاوران حضرت قائم - عجل الله فرجه - خواهد شد، از خداوند می خواهیم:
«فَأَظْهِرِ اللَّهُمَّ لَنا وَلِیکَ وَابْنَ بِنْتِ نَبِیکَ»؛(۲۱)
«خدایا ولی خودت را برای ما ظاهر کن، او که فرزند دختر پیامبرت است».
۱۴ - ابن خدیجه:
فرزند خدیجه بلند مقام؛ چون او فرزند امام حسین (علیه السلام) و فرزند فاطمه زهراست که دختر حضرت خدیجه می باشد و در دعای ندبه می گوییم:
«أَینَ ابْنُ النَّبِی الْمُصْطَفی.. وَابْنُ خَدِیجَهَ الْغَرّآءِ»(۲۲)
«کجاست فرزند پیامبرت مصطفی... و کجاست فرزند خدیجه والامقام!»
پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) فرمود: مهدی از خاندان من و از فرزندان فاطمه (علیها السلام) است.
۱۵ - ابن خِیرَه الاماء:
به معنای فرزند بهترین کنیزان است؛ یعنی حضرت نرجس، مادر امام زمان (علیه السلام) که جریان خواستگاری و ازدواج امام حسن عسکری (علیه السلام) با ایشان داستان مفصلی دارد که در کتاب های متعددی آمده است.
همچنین عبارت «ابن خیره الاماء» به طور مکرر در احادیث امامان (علیهم السلام) آمده است.(۲۳)
۱۶ - ابن علی:
این از افتخارات امیرالمؤمنین (علیه السلام) است که خودش خلیفه بلافصل پیامبر باشد و تمام امامان نیز از فرزندان و نسل او باشند؛ چنان که پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) فرمود:
«عَلَی بْنُ أَبِی طالِبٍ إِمامُ أُمَّتِی وَخَلِیفَتِی عَلَیهِمْ بَعْدِی وَمِنْ وُلْدِهِ الْقائِمُ الْمُنْتَظِرُ الَّذِی یمْلأُ الله عَزَّوَجَلَّ بِهِ الأَرْضَ عَدْلاً وَقِسْطَاً کَما مُلِئَتْ جَوْرَاً وَظُلْمَاً»؛(۲۴)
«امیرالمؤمنین علی (علیه السلام) امام امّت من و جانشین بعد از من بر امّت من است، از فرزندان اوست قائم منتظر که خداوند به وسیله او زمین را از عدل و داد پر می کند، همان طور که از ظلم و جور پر شده باشد».
۱۷ - ابن فاطمه:
امام زمان (علیه السلام) فرزند فاطمه زهرا(علیها السلام) است و همیشه او را با «یا بن الزهراء» صدا می کنند؛ چنان که امام باقر (علیه السلام) فرمود:
«اَلْمَهْدِی رَجُلٌ مِنْ وُلْدِ فاطِمَهَ... مهدی (علیه السلام) مردی از نسل فاطمه (علیها السلام) است.(۲۵)
با این عناوین است که گمشده خود را در دعای ندبه مورد خطاب قرار می دهیم و می گوییم:
«أَینَ ابْنُ النَّبِی الْمُصْطَفی وَابْنُ عَلِی الْمُرْتَضی وَابْنُ خَدِیجَهَ الْغَرّآءِ وَابنُ فَاطِمَهَ الْکُبْری »(۲۶)
«کجاست آن فرزند پیامبر خدا و علی مرتضی و فرزند خدیجه و فاطمه کبری؟»
۱۸ - ابوابراهیم:
چنان که صاحب نجم الثاقب نقل کرده از کنیه های امام زمان (علیه السلام)، ابوابراهیم است.(۲۷)
۱۹ - ابوالقاسم:
یکی دیگر از کنیه های امام زمان (علیه السلام)، ابوالقاسم است که در احادیث فراوان و معتبر، اهل سنت و شیعه از پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) نقل کرده اند که ایشان فرموده اند: کنیه امام زمان (علیه السلام) کنیه من است.
قال رسول الله (صلی الله علیه وآله): «اَلْمَهْدِی مِنْ وُلْدِی، إِسْمُهُ إِسْمِی وَکُنْیتُهُ کُنْیتِی»؛(۲۸)
«مهدی از فرزندان من است، اسم او اسم من است (یعنی محمّد) و کنیه او کنیه من (و کنیه پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله)، ابوالقاسم) می باشد».
۲۰ - ابوبکر:
در مقاتل الطالبین گفته شده است ابوبکر از کنیه های امام رضا و امام زمان (علیهما السلام) است.(۲۹)
۲۱ - ابوتراب:
از کنیه های امام زمان (علیه السلام)، ابوتراب است که این کنیه را پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) به امام علی (علیه السلام) داده بود و مراد از ابوتراب یعنی صاحب خاک و مربی زمین است.(۳۰)
۲۲ - ابوجعفر:
از الهدایه الکبری صفحه ۳۲۸ نقل شده است که ابوجعفر از کنیه های امام زمان (علیه السلام) است.(۳۱)
۲۳ - أبو عبد الله:
از کنیه های دیگر امام زمان (علیه السلام) ابو عبد الله است.
حذیفه می گوید که پیامبر خدا(صلی الله علیه وآله) فرمود:
«لَوْ لَمْ یبْقِ مِنَ الدُّنْیا إِلّا یوْمٌ وَاحِدٌ لَبَعَثَ الله فِیهِ رَجُلاً اِسْمُهُ إِسْمِی وَ خُلْقُهُ خُلْقِی، یکَنّی أَبا عَبْدِ اللهِ (علیه السلام)»؛(۳۲)
«اگر فقط یک روز از عمر دنیا باقی مانده باشد، خداوند در آن روز مردی را مبعوث خواهد کرد که اسم او اسم من است، خُلق او خلق من و کنیه اش ابو عبد الله می باشد».
۲۴- ابومحمّد:
این کنیه را نیز هدایه الکبری برای آن جناب نقل کرده است.(۳۳)
۲۵ - احسان:
احسان از نام های امام زمان (علیه السلام) است که به معنای نیکی و نیکی کردن است.(۳۴)
و پرواضح است که احسان و نیکی آن حضرت تمام عالم و آدم را شامل می شود.
۲۶ - احمد:
احمد نام آسمانی پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) است که آیه شریفه قرآن نیز به آن تصریح کرده است: «وَإِذْ قالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیمَ یا بَنِی إِسْرائِیلَ إِنِّی رَسُولُ الله إِلَیکُم مُصَدِّقاً لِّما بَینَ یدَی مِنَ التَّوْرَاهِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یأْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُهُ أَحْمَدُ...»(۳۵) و اسم مخفی امام زمان (علیه السلام) نیز احمد است. شاهد آن حدیث پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) است که از شیخ طوسی در «کتاب غیبت» نقل شده که فرمود: میان رکن و مقام با او بیعت می کنند، اسم او احمد و عبد الله و مهدی است.(۳۶)
و حدیث امیرالمؤمنین (علیه السلام) که فرمود: مردی از فرزندان من در آخرالزمان ظهور می کند... برای او دو اسم است، یکی اسم مخفی و یکی اسم ظاهر، امّا اسم مخفی او احمد است.(۳۷)
۲۷ - اُذُن سامِعه:
از القاب امام زمان (علیه السلام) اذن سامعه می باشد.(۳۸)
در قسمتی از زیارت برای آن حضرت آمده است:
«اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَارْفَعْ عَنْ وَلِیکَ وَ خَلِیفَتِکَ وَ لِسانِکَ وَ الْقائِمِ بِقِسْطِکَ.... وَ اُذُنِکَ السّامِعَهِ وَ شاهِدِ عِبادِکَ...»(۳۹)
خدایا بر محمّد و آل گرامی او درود فرست و هرگونه بلا را از ولی و خلیفه خودت رفع فرما، او که زبان گویای تو و قائم به قسط است، آن امامی که گوش شنوای تو و گواه بر بندگان است....
۲۸ - اصل:
صاحب نجم الثاقب توقیعی را شرح داده و از امام زمان (علیه السلام) به «اصل» تعبیر نموده؛ اگرچه از سایر امامان نیز به اصل تعبیر می شود، چون ایشان اصل هر علم و خیر و برکت و فیض اند؛ یعنی هیچ حقّی به دست کسی نیست مگر آن که به ایشان منتهی می شود و نعمتی به کسی نمی رسد مگر آن که از جانب ایشان است که ایشان مقصود اصلی از خلقت جهانیان هستند.(۴۰)
۲۹ - إمام:
او دوازدهمین و آخرین امام و جانشین پیامبر خاتم (صلی الله علیه وآله) است،پس از او دیگر نه پیامبری است نه امامی، او واسطه خلق با خداست.
پس او امام است، امام زمین و زمان، امام علی الاطلاق اوست، پیشوا و رهبر همه اوست.
لذا این گونه به ایشان سلام می دهیم:
«سَلامُ الله الْکامِلُ التّآمُّ الشّامِلُ الْعآمُّ، وَصَلَواتُهُ الدّآئِمَهُ، وَبَرَکاتُهُ الْقآئِمَهُ التّآمَّهُ، عَلی.. الْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ».(۴۱)
سلام کامل و تام و تمام خدای متعال و سلام عام و شامل و رحمت پیوسته و برکات پاینده و کامل او بر حجت خدا و امام منتظر.
۳۰ - امام الانس والجان:
امام زمان (علیه السلام) چون خلیفه و جانشین خداست، هم امام تمام انسان هاست و هم امام جنّ ها می باشد؛ چنان که طایفه جنّ نیز مثل انسان ها مؤمن و کافر دارند.
۳۱ - امام المنتظَر:
«او» امامی است که همه در انتظارش می باشند.
لذا در زیارت نامه به پدر بزرگوارش سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا أَبَا الْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ»؛(۴۲)
«سلام بر تو ای امام عسکری که پدر امام منتظر می باشی».
۳۲ - امام المؤمنین:
امام یعنی پیشوا و جلودار و رهبر و راهنما، و «او» پیشوا و رهبر و راهنمای مؤمنان و خداپرستان است.
لذا برایش این گونه دعا می کنیم:
«وَصَلِّ عَلَی الْخَلَفِ الْهادِی الْمَهْدِی، إِمامِ الْمُؤْمِنِینَ»؛(۴۳)
«خدایا درود فرست بر آن جانشین امامان، آن هادی و مهدی، که امام همه مؤمنان است».
۳۳ - امام ثانی عشر:
پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) از همان آغاز بعثت و در موارد متعدد به مسئله جانشینی خود اشاره و گاه تصریح می کردند؛ می فرمودند که اولین جانشین من چه کسی است، جانشینان من چند نفرند، نام های آنان چیست،.... از مواردی که معروف و مشهور است و احادیث زیادی در این مورد وارد شده این است که امامان بعد از من دوازده نفرند همچنان که نقبای بنی اسرائیل دوازده نفر بودند،(۴۴) و دوازدهمین ایشان مهدی است:
«اَلائِمَّهُ مِنْ بَعْدِی اِثْنا عَشَرَ، أَوَّلُهُمْ أَنْتَ یا عَلِی وَ آخِرُهُمْ الْقائِمُ الَّذِی یفْتَحُ الله تَعالی ذِکْرُهُ عَلی یدَیهِ مَشارِقَ الارْضِ وَ مَغارِبَها».(۴۵)
امامان بعد از من دوازده نفرند، اول آنان تویی ای علی و آخر ایشان همان قائمی است که خداوند متعال به وسیله او سرتاسر عالم از شرق تا غرب را فتح خواهد کرد.
۳۴ - امام زمان:
معروف ترین و مشهورترین لقب آن حضرت، امام زمان (علیه السلام) است که بیشتر در بین فارسی زبان ها متداول می باشد؛ یعنی امامی که همیشه و همه جا حاضر و ناظر است، امامی که همه وظیفه داریم او را بشناسیم، امامتش را قبول کرده، در بیعت او باشیم و ولایت او را بپذیریم.
۳۵ - امامنا:
یعنی «او» امام همه ماست، واسطه بین ما و خداست که در زیارت نامه می خوانیم:
«وَأَتَوَسَّلُ إِلَیکَ یا رَبِّ بِإِمامِنا»؛(۴۶)
«خدایا به تو متوسل می شوم، ای پروردگار من به وسیله امام زمان ما».
۳۶ - امام هادی:
او پیشوایی است که مردم را به راه خیر و نیکی هدایت می کند، او امام هادی است نه گمراه کننده؛ او هم خودش هدایت شده و هم هدایت می کند:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الإِمامُ الهادِی الْمَهْدِی»
سلام بر تو ای امامی که هدایت کننده و هدایت شده ای!
۳۷ - امام مهدی:
امام زمان (علیه السلام) به نام «امام مهدی» نیز نامیده شده و معروف است؛ اگرچه همه امامان (علیهم السلام) مهدی هستند، امّا این لقب بیشتر برای آن حضرت استعمال می شود و چنان که ذکر شده در زیارت نامه ایشان می گوییم:
«اَشْهَدُ اَنَّکَ الامامُ الْمَهْدِی قَوْلاً وَ فِعْلاً...»(۴۷)
«من گواهی می دهم که تو امام مهدی هستی (مردم را هدایت می کنی) هم با زبان و هم با عمل....»
۳۸ - امام همه خلایق:
او نه تنها امام شیعیان و مسلمانان است، بلکه امام همه انسان ها و همه مخلوقات است. پس به او سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بْنَ الْأَئِمَّهِ الْحُجَجِ الْمَعْصُومِینَ، وَالْإِمامِ عَلَی الْخَلْقِ أَجْمَعِینَ»؛(۴۸)
«سلام بر تو ای فرزند حجت های الهی و امامان معصوم، تویی که امام تمام مخلوقات هستی».
در دعای عدیله چنین وارد شده است:
«وَبِیمْنِهِ رُزِقَ الْوَری وَبِوُجُودِهِ ثَبَتَتِ الْأَرْضُ وَالسَّمآءُ»؛(۴۹)
«به برکت اوست که همه روزی داده می شوند و به وجود اوست که آسمان و زمین سکون یافته اند».
۳۹ - امام الّذی یفوز بِه المؤمنون:
امام زمان (علیه السلام) مایه رستگاری و نجات مؤمنان است که در زیارت نامه اش می خوانیم:
«أَیهَا الْإِمامُ الَّذِی یفُوزُ بِهِ الْمُؤْمِنُونَ»؛(۵۰)
«امام زمان (علیه السلام) امامی است که مؤمنان به دست او به فیض می رسند و رستگار می شوند».
۴۰ - امام الّذی یهلک علی یدیه الکافرون:
یعنی امام هلاک کننده کافران، چنان که در زیارت نامه اش آمده است:
«أَیهَا الْإِمامُ الَّذِی یفُوزُ بِهِ الْمُؤْمِنُونَ... وَ یهْلَکُ عَلی یدَیهِ الْکافِرُونَ الْمُکَذِّبُونَ»؛(۵۱)
«امام زمان (علیه السلام) امامی است که مؤمنان به دست او به فیض می رسند و رستگار می شوند و کافران و تکذیب کنندگان به دست او به هلاکت می رسند».
۴۱ - اَمان:
اَمان از القاب امام زمان (علیه السلام) و به معنای امنیت دادن و پناه دادن به کسی می باشد؛ چنان که کتاب دلائل الامامه نیز آن حضرت را به امان توصیف نموده است.(۵۲)
خود امام زمان (علیه السلام) نیز فرموده است:
«وَإِنّی لَأَمانٌ لِأهلِ الأَرْضِ کَما أَنَّ النُّجُومَ أَمانٌ لأَهْلِ السَّمآءُ»؛(۵۳)
«همانا من مایه امان و امنیت زمین هستم همان طور که ستارگان مایه امان اهل آسمان هستند».
۴۲ - امر الله:
به معنای امر و فرمان خداست که از اوصاف امام زمان (علیه السلام) می باشد.
امام صادق (علیه السلام) در مورد آیه «أَتَی أَمْرُ الله فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحانَهُ وَتَعالَی عَمّا یشْرِکُونَ»(۵۴) فرموده است:
«أَوَّلُ مَنْ یبایعُ الْقائِمَ جَبْرَئِیلُ.... ثُمَّ ینادِی بِصَوْتٍ طَلِقٍ تَسْمَعُهُ الْخَلائِقُ: أَتَی أَمْرُ الله فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ.»(۵۵)
«نخستین کسی که با حضرت قائم (علیه السلام) بیعت می کند، جبرئیل است... آن گاه با صدای بلند ندا می دهد، به نحوی که همه مردم آن را می شنوند: امر خدا آمد، پس برای آن عجله و شتاب نکنید.»
۴۳ - امیر:
یعنی فرمانده و فرمان روا، که از اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده است؛ چنان که سایر امامان (علیهم السلام) نیز امیر بوده اند؛ لذا پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) فرموده اند:
«یکُونُ بَعْدِی اثْنا عَشَرَ أَمِیراً...»؛(۵۶)
«بعد از من دوازده امیر خواهد بود....»
۴۴ - امیر الامَره:
به معنای فرمانروای فرمانروایان، لقبی است که امیرالمؤمنین (علیه السلام) امام زمان (علیه السلام) را به آن ملقّب فرمودند. همچنین حدیثی از پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) نقل شده که فرمودند:
دجال بیرون می آید و در اغوا و اضلال مبالغه می کند، پس امیر امره و قاتل کفره و سلطان مأمول ظاهر می شود که عقول در غیبت او متحیر است، ای حسین او نهم از فرزندان توست. بین رکنین ظاهر می شود و بر ثقلین غلبه می کند.(۵۷)
۴۵ - امین(۵۸):
به معنای امانتدار است که حضرت را به آن توصیف نموده اند؛ چنان که جدّ بزرگوارش به «محمّد امین» معروف بوده است.
۴۶ - اوقیدمو:
در کتاب ذخیره الالباب ذکر شده که به موعود آخرالزمان در تورات به لغت ترکوم، «اوقیدمو» گفته می شود.(۵۹)
۴۷ - اَیدی:
از القاب امام زمان (علیه السلام) «ایدی» گفته شده است و احتمال داده اند به معنای نعمت باشد، نعمت ظاهر و باطن، که از آیه شریفه: «وَأَسْبَغَ عَلَیکُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَهً وَباطِنَهً»(۶۰) اقتباس شده است.(۶۱)
امام کاظم (علیه السلام) در مورد این آیه فرمودند: امام ظاهر، نعمت ظاهره و امام غایب، نعمت باطنه است. در بسیاری از مواضع در قرآن، نعمت به امام تفسیر شده است.(۶۲)
۴۸ - ایزدشناس - ایزدنشان:
مرحوم شیخ بهایی در کشکول فرموده که منجی عالم بشریت و موعود آخر الزمان را فارسیان، ایزدشناس و ایزدنشان می گویند.(۶۳)
۴۹ - ایستاده:
از اسامی موعود آخر الزمان است که کتاب ذخیره الالباب از کتاب شاکمونی نقل کرده که به آن حضرت «ایستاده» می گویند.(۶۴)
۵۰ - باب الله:
امام زمان (علیه السلام) باب الله است، درگاه خداست.(۶۵) یعنی برای رسیدن به خدا باید از او گذشت؛ لذا در زیارت آل یاسین این گونه سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بابَ الله وَدَیانَ دِینِهِ»؛(۶۶)
«سلام بر تو ای درگاه لطف و رحمت خدا و حاکم و حافظ دین خدا».
و در جای دیگر:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بابَ الله الَّذِی لا یؤْتی إِلّا مِنْهُ»؛(۶۷)
«سلام بر تو ای باب خدا که کسی به خدا نمی رسد مگر از آن».
برای رسیدن به قرب الهی هیچ راهی جز از درگاه آن، که امام زمان (علیه السلام) باشد نیست؛ لذا ناله و ندبه سر می دهیم که آن گمشده کجاست:
«أَینَ بابُ الله الَّذِی مِنْهُ یؤْتی »؛(۶۸)
«کجاست آن باب و درگاه الهی که هر کس بخواهد به خدا برسد باید از آن بگذرد».
۵۱ - بابُ المَقام:
باب المقام نیز از اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده است؛ چنان که در زیارت نامه به ایشان دعا می کنیم:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ...وَ بابُ الْمَقامِ لِیوْمِ الْقِیامِ»؛(۶۹)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان، و او که باب درگاه برای روز قیام است».
۵۲ - باسط:
«باسط» به معنای گستراننده، از القاب امام زمان (علیه السلام) است، به معنای فراخ کننده و گسترنده.(۷۰) چون فیض آن حضرت چنان است که مانند آفتاب به همه جا می رسد و هر موجودی را در بر می گیرد. در آن زمان عدالت و امنیت چنان فراگیر می شود که گرگ و گوسفند، گاو و شیر، و مار و انسان در امان هستند و با همدیگر زندگی می کنند.(۷۱)
۵۳ - باطن(۷۲):
«باطن» به معنای نهان، از القاب امام زمان (علیه السلام) است که به تقدیر و مصلحت الهی از چشم مردم نهان شده است.
۵۴ - بِئْر مُعَطَّله:
از دیگر القاب مهدی موعود و امام غایب از نظر بئر معطّله است.
به امام زمان (علیه السلام) بئر معطّله گفته می شود، چون علی بن ابراهیم می گوید: امام صادق (علیه السلام) در تفسیر آیه «وَبِئْرٍ مُعَطَّلَهٍ وَقَصْرٍ مَشِیدٍ»(۷۳) فرمود: این مثلی است که برای آل محمّد(علیهم السلام) جاری شده. بئر معطله یعنی چاهی که از آن آب کشیده نمی شود، امّا منظور امامی است که غایب شده و از علوم او استفاده نمی شود.
«هذا مَثَلٌ لآلِ مُحَمَّدٍ لِلإِمامِ الْقآئِمِ دَلَّ عَلی غِیبَتِهِ فَالْبِئرُ الْمُعَطَّلَهُ الإِمامُ وَهُوَ مُعَطَّلٌ لا یقْتَبِسَ مِنْهُ الْعِلْمَ وَأحَسَنُ ماقِیلَ فِی هذَا التَّأْوِیلِ...»؛(۷۴)
۵۵ - بَحْر القَمْقام:
به معنای دریای بیکران و بزرگ و کنایه از شخص کریم و بزرگوار و بسیار بخشنده، که از القاب امام زمان (علیه السلام) دانسته شده است. چنان که سید بن طاووس در زیارت سرداب مقدّس آورده است:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... والْبَحْرِ الْقَمْقَام»؛(۷۵)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان، و بر او که دریای بزرگ و بیکران می باشد».
۵۶ - بَدْرالتَّمام:
از القاب امام زمان (علیه السلام) «بدر التمام» است به معنای ماه شب چهاردهم که به کمال خود می رسد؛ بنابراین این چنین به ایشان سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلی شَمْسِ الظَّلامِ وَبَدْرِ التَّمامِ»؛(۷۶)
«سلام بر آفتاب شام ظلمانی جهان و ماه تمام ایمان که شب و روز عالم به نور جمالش روشن گردد».
۵۷ - بَرکت الله:
از اوصاف امام زمان (علیه السلام) برکه الله می باشد:
«یا وِقایهَ الله وَ سِتْرَهُ وَ بَرَکَتَهُ أَغْنِنِی اَدْنِنِی أَدْرِکْنِی صِلْنِی بِکَ وَلا تَقْطَعْنِی»(۷۷)
«ای سپر خدا و ای پوشش و برکت او مرا به برکت او بی نیاز کن و به او نزدیک گردان و به حرز و پناه خدا مرا در برگیر و مرا به خود متصل نما و از خود جدانفرما.»
۵۸ - برهان الله:
کتاب تذکره الائمه از کتاب انکلیون نقل کرده که از اسامی امام زمان (علیه السلام) برهان الله است، بلکه برهان قاطع الهی است.(۷۸)
۵۹ - بقیه الله:
از مشهورترین اسامی امام زمان (علیه السلام) بقیه الله است.
امام صادق فرمودند: آن گاه که مهدی ظهور کند پشت به دیوار کعبه می دهد و آیه «بَقِیتُ الله خَیرٌ لَّکُمْ»(۷۹) را می خواند، پس می فرماید:
«أَنَا بَقِیهُ الله وَحُجَّهُ اللهِ...»؛(۸۰)
«من بقیه الله و حجه الله هستم».
و در دعای ندبه این گونه به دنبال آن یوسف گمشده هستیم که:
«أَینَ بَقِیهُ الله الَّتِی لا تَخْلُو مِنَ الْعِتْرَهِ الْهادِیهِ»؛(۸۱)
«کجاست حضرت بقیه الله که عالم خالی از عترت هادی امّت نیست».
حال که دستمان از دامن او کوتاه است؛ چنان که دستور داده اند از همه جا بر او سلام می کنیم که:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بَقِیهَ الله مِنَ الصَّفْوَهِ الْمُنْتَجَبِینَ»؛(۸۲)
«سلام بر تو ای باقی مانده خدا از برگزیدگان پاک».
۶۰ - بقیه الله فی ارضه:
این نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) است که امام صادق (علیه السلام) فرمود: هیچ کسی بر او سلام نمی کند مگر این که می گوید: «اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بَقِیهَ الله فِی أَرْضِهِ».(۸۳)
لذا در زیارت آل یاسین نیز این گونه خطاب می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بَقِیهَ الله فِی أَرْضِهِ»؛(۸۴)
«سلام بر تو ای باقی مانده خدا در زمین او».
۶۱ - بقیه الله فی بِلاده:
او آخرین و تنها حجت باقی مانده خدا در زمین است؛ لذا در زیارت ایشان می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلی بَقِیهِ الله فِی بِلادِهِ وَحُجَّتِهِ عَلی عِبادِهِ»؛(۸۵)
«سلام بر آن باقی مانده خدا در شهرها و حجت خداوند بر بندگانش».
۶۲ - بقیه الانبیاء:
یکی از نام های امام زمان (علیه السلام) بقیه الانبیاء است، یعنی باقیمانده و ادامه دهنده راه انبیا.
کتاب مشارق انوار الیقین از حکیمه خاتون عمه امام زمان (علیه السلام) روایت کرده: آن گاه که امام زمان (علیه السلام) به دنیا آمد، ایشان را نزد امام حسن عسکری (علیه السلام) آوردم. برادرم با دست شریف بر روی نور او مسح کرد و فرمود:
سخن بگو ای حجه الله و بقیه انبیا و نور اصفیا و غوث فقرا و خاتم اوصیا».(۸۶)
و در بحار الانوار در زیارت صاحب الامر دارد:
«اَللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلی.. وَصِیّ الاَوْصِیآءِ وَبَقِیهِ الأَنْبِیآءِ الْمُسْتَتَرِ عَنْ خَلْقِکَ»؛(۸۷)
«خدایا درود فرست بر... جانشین اوصیا و باقیمانده انبیا و آن که از خلق تو مخفی و پنهان است».
۶۳ - بقیه الاخیار:
یکی دیگر از القاب امام زمان (علیه السلام) بقیه الاخیار به معنای باقی مانده نیکان است که به ایشان این گونه سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَی الإِمامِ الْغائِبِ... بَقِیهِ الأَخْیارِ الوَارِثِ ذَالْفَقارِ»؛(۸۸)
«سلام بر آن امام غایب... که باقیمانده اخیار است...».
۶۴ - بَلَدُ الأمین:
یعنی قلعه محکم خداوند که کسی را بر آن تسلطی نیست و این مختص امام زمان (علیه السلام) است. فاضل متتبع میرزا احمد رضا مدرس در جنات الخلود آن را از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده است.(۸۹)
۶۵ - بنده یزدان:
از نام های منجی عالم بشریت بنده یزدان است که در کتاب ایستاع، ایشان را به این اسم نامیده اند.(۹۰)
۶۶ - بَوار الکافرین:
«او» نابودکننده کافران و ملحدان است، لذا برایش دعا می کنیم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ... وَبَوارِ الْکافِرِینَ»؛(۹۱)
«خدایا درود فرست بر محمّد که حجت توست و محو و نابودکننده کافران می باشد».
۶۷ - بَوار اَعْدائِه:
«او» ذخیره خداست، برای روزی که بیاید و تمام دشمنان خدا و انسانیت و عدالت را نابود گرداند و جهان پر از عدل و داد گردد.
لذا بر او سلام می فرستیم:
«السَّلامُ عَلَی الْمُدَّخَرِ لِکَرامَهِ أَوْلِیآءِ الله وَبَوارِ أَعْدآئِهِ»؛(۹۲)
«سلام بر آن کسی که خدا او را برای عزت و بزرگواری دوستانش و نابودی دشمنانش ذخیره کرده است».
۶۸ - بهرام:
از کتاب ایستاع و ذخیره الالباب نقل شده است که بهرام از اسامی موعود آخر الزمان می باشد که آن حضرت را به این اسم نامیده اند.(۹۳)
۶۹ - پرویز (یا برویز):
این اسم نیز از کتاب برزین از فارسیان نقل شده که پرویز از اسامی امام زمان (علیه السلام) و موعود آخرالزمان است و به معنای پیروز و منصور می باشد.(۹۴)
۷۰ - پسر إنسان:
نام منجی عالم بشریت و امام زمان (علیه السلام) نزد مسیحیان پسر انسان است.
کلمه پسر انسان در کتاب مقدّس مسیحیان بارها تکرار شده و در آن از نجات دهنده ای می گوید که در آخرالزمان می آید که مسیح نیز همراه او خواهد آمد و این کسی جز مهدی (علیه السلام) نیست.(۹۵)
۷۱ - تالی کتاب الله:
از نام های امام زمان (علیه السلام) تالی کتاب خداست که در زیارت آل یاسین می گوییم:
«السَّلامُ عَلَیکَ یا تالِی کِتابِ الله...».(۹۶)
«سلام بر تو ای تالی کتاب خدا...».
یعنی «او» تالی قرآن است که برای تالی دو گونه ترجمه و تفسیر شده است:
۱ - به معنای همتای کتاب خدا،
۲ - به معنای تلاوت کننده کتاب خدا،
لکن ظاهراً در اینجا معنای دوم مقصود است و آن از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۹۷)
۷۲ - تأیید:
از اسامی امام زمان (علیه السلام) است و به معنای قدرت و نیرو بخشیدن می باشد که از کلام امیرالمؤمنین (علیه السلام) اقتباس شده است. آن حضرت فرمود:
«... وَضَعَ یدَهُ عَلی رُؤُوسِ العِبادِ فَلا یبْقی مُؤمِنٌ الّا صارَ قَلْبُهُ اَشَدَّ مِنْ زُبُرِ الْحَدِیدِ وَاَعْطاهُ الله قُوَّهَ اَرْبَعِینَ رَجُلاً...»؛(۹۸)
«دست خود را بر سر بندگان خدا می گذارد، پس باقی نمی ماند مؤمنی مگر این که قلب او از آهن گداخته نیز استوارتر می شود، و خداوند قدرت و نیروی چهل مرد را به او عطا می کند».
۷۳ - ترجُمان کتاب الله:
«او» تنها کسی است که اکنون می تواند قرآن کریم را تفسیر و تبیین نماید، چنان که در خود قرآن آمده «... وَأَنزَلْنا إِلَیکَ الذِّکْرَ لِتُبَینَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَیهِمْ وَلَعَلَّهُمْ یتَفَکَّرُونَ»(۹۹)
خدا می فرماید: ما قرآن را نازل کردیم تا تو آن را برای مردم تبیین نمایی، و پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) فرمود: من دو چیز گران بها می گذارم، قرآن و عترت را. و امام زمان (علیه السلام) آخرین وصی و امام از عترت اوست. لذا می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا تالِی کِتابِ الله وَتَرْجُمانَهُ»؛(۱۰۰)
«سلام ما بر تو که تلاوت کننده و تفسیر و تبیین کننده کتاب خدایی».
۷۴ - تقی:
به معنای پرهیزگار و باتقواست، تقی از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است.
و در دعا برای آن حضرت می گوییم:
«... وَأَنَّهُ الْهادِی الْمُهْتَدِی الطّاهِرُ، التَّقِی النَّقِی، الرَّضِی الزَّکِی»؛(۱۰۱)
«او امام هدایت کننده و هدایت شونده است، او پاک و باتقوا و پاکیزه و باصفا و مورد پسند است».
۷۵ - تِلاد نِعَم:
به معنای نعمت بی پایان خداست و از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد که از بخشی از دعای ندبه اقتباس شده است:
«بِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ تِلادِ نِعَمٍ لا تُضاهی؛(۱۰۲)
«جانم به قربان تو که از آن نعمت های خاص و عالی خدایی که مثل و مانند ندارد».
۷۶ - تمام:
کتاب هدایه الکبری آن را از القاب امام زمان (علیه السلام) دانسته، چون «او» در صفات پسندیده و کمال و افعال و شرافت نسب و شوکت و سلطنت و قدرت و رأفت، تام و تمام و بی عیب و نقص است.
و شاید تمام به معنای متمّم و مکمّل باشد، چون خلافت و ریاست الهیه در زمین و آیات باهره و علوم و اسرار انبیا و اوصیا توسط آن حضرت تمام می شود.(۱۰۳)
۷۷ - ثائر:
به معنای خون خواه و انتقام خواه می باشد. شاید به این جهت آن را از القاب امام زمان (علیه السلام) می دانند که «او» انتقام خون به ناحقّ ریخته همه مظلومان و جمیع انبیا و اولیا به خصوص جدّ بزرگوارش امام حسین (علیه السلام) را خواهد گرفت. و لذا فرموده اند:
«... هُوَ الثّائِرُ مِنْ عِتْرَتِکَ...».(۱۰۴)
«او انتقام گیرنده از عترت پیامبر(صلی الله علیه وآله) است.»
و در دعای ندبه چنین ناله می کنیم:
«أَینَ الطّالِبُ بِذُحُولِ الْأَنْبِیآءِ وَأَبْنآءِ الْأَنْبِیآءِ؟ أَینَ الطّالِبُ بِدَمِ الْمَقْتُولِ بِکَرْبَلاءَ؟»؛(۱۰۵)
«کجاست آن که طلب کننده خون پیامبران و فرزندان پیامبر است؟ کجاست آن که طالب خون کشته شده در کربلاست؟»
۷۸ - ثائِر بِأمْرک:
یعنی برانگیزاننده خلایق به امر تو که با این کلام امام زمان (علیه السلام) توصیف شده است؛ لذا به ایشان اشاره می کنیم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ، وَخَلِیفَتِکَ فِی بِلادِکَ، وَالدّاعِی إِلی سَبِیلِکَ، وَالْقآئِمِ بِقِسْطِکَ، وَالثّآئِرِ بِأَمْرِکَ، وَلِی الْمُؤْمِنِینَ»؛(۱۰۶)
«خدایا درود فرست بر محمّد که حجت تو در زمین است و خلیفه تو در شهرهاست و دعوت کننده به راه تو و قیام کننده به عدالت است، آن که مردم را به امر تو بر می انگیزد و امام ولی مؤمنان است».
۷۹ - ثابت:
از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است و در زیارت نامه مربوط به ایشان می خوانیم:
«أَشْهَدُ أَنَّکَ الْحَقُّ الثّابِتُ الَّذِی لا عَیبَ فِیهِ»؛(۱۰۷)
«گواهی می دهم که تو آن حقّ ثابت ابدی هستی که از هر عیب و نقصی پاک و منزه می باشی».
و در جای دیگر آمده است:
«... وَالثّابِتَهِ فِی الْیقِینِ مَعْرِفَتُهُ».(۱۰۸)
۸۰ - ثار الله:
ثار الله نیز از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) است، چنان که در زیارت سرداب می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا ثار اللهِ».(۱۰۹)
«سلام بر تو ای ثار الله!»
۸۱ - جابر:
به معنای درست کننده و ترمیم کننده و شکسته بند است.(۱۱۰)
این لقب از خصایص حضرت امام زمان (علیه السلام) است که فرج اعظم و گشایش همه کارها و جبران همه دل های شکسته و خرسندی همه قلوب پژمرده به وجود مقدّس «او» است.(۱۱۱)
۸۲ - جامِعُ الکَلِم:
به معنای جمع کننده تمام کلمات الهی و یا جمع کننده پراکندگی ها، و از القاب امام زمان (علیه السلام) است که در زیارت نامه آن حضرت می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلی مَهْدِی الْأُمَمِ وَجامِعِ الْکَلِمِ»؛(۱۱۲)
«سلام بر مهدی و هادی امّت ها و خلایق، و جامع تمام کلمات وحی الهی».
۸۳ - جامِعُ الکَلِمه:
جامع الکلمه نیز از اسامی آن حضرت است، به معنای آن کسی که کلمه توحید و یگانگی را حاکم می کند، لذا در دعای ندبه می گوییم:
«أَینَ جامِعُ الْکَلِمَهِ عَلَی التَّقْوی؛(۱۱۳)
«کجاست آن که بساط اختلاف و تفرقه را بر می چیند و مردم را بر وحدت کلمه تقوی و دین مجتمع می سازد».
۸۴ - جانب:
در کتاب دلائل الامامه، امام زمان (علیه السلام) به «جانب» توصیف شده است.(۱۱۴)
۸۵ - جَحْجاحِ المُجاهد:
به معنای مجاهد بزرگ؛ و او بزرگ ترین مجاهد در راه خداست که در دعا برای آن حضرت می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ ادْفَعْ عَنْ وَلِیکَ... الْجَحْجاحِ الْمُجاهِدِ...»؛(۱۱۵)
«خدایا هر نوع بلا را از ولی خود دفع کن... از آن بزرگ ترین مجاهد در راه تو».
۸۶ - جعفر:
از دیگر نام های امام زمان (علیه السلام) جعفر است.
شیخ صدوق از حمزه بن الفتح روایت کرده که برای امام حسن عسکری (علیه السلام) فرزندی به دنیا آمد که امر فرمود آن را کتمان کنند.
حسن بن منذر از او پرسید: اسم او چیست؟
گفت: محمّد اسم او و جعفر کنیه اوست.(۱۱۶)
۸۷ - جمعه:
جمعه نام آخرین روز هفته و روزی است که تولد موعود آخرالزمان در آن روز؛ یعنی در سحرگاه «جمعه» نیمه شعبان سال ۲۵۵ هجری قمری واقع شده است؛(۱۱۷) همچنان که انتظار می رود ظهور امام زمان (علیه السلام) نیز در آن روز واقع شود.
و در زیارت امام زمان (علیه السلام) در روز جمعه آمده:
«هذا یوْمُ الْجُمُعَهِ وَهُوَ یوْمُکَ الْمُتَوَقَّعُ فِیهِ ظُهُورُکَ».(۱۱۸)
«این روز جمعه است و آن روز توست که انتظار می رود ظهور تو در آن واقع شود.»
مرحوم حاج میرزا حسین طبرسی نوری «جمعه» را نیز از اسامی امام زمان (علیه السلام) بر شمرده است.(۱۱۹)
امام علی النقی (علیه السلام) در شرح حدیث پیامبر(صلی الله علیه وآله) که فرموده با روزها دشمنی نکنید، فرمود:
روزها ما هستیم و جمعه پسرِ پسرِ من است که اهل حقّ و صدق به سوی او جمع می شوند.(۱۲۰)
۸۸ - جَنْبُ الله:
از هدایه الکبری نقل کرده اند که اخبار زیادی در تفسیر آیه «یاحَسْرَتَی عَلَی ما فَرَّطتُ فِی جَنْبِ اللهِ»؛(۱۲۱) رسیده که امام جنب الله است.(۱۲۲)
و فرموده اند: نَحْنُ جَنْبُ اللهِ.(۱۲۳)
و همچنین از القاب امیرالمؤمنین (علیه السلام) است که طبق فرموده خودشان... اَنَا جَنْبُ اللهِ.(۱۲۴)
۸۹ - جَوارِ الکُنَّس:
به معنای ستارگان متحرک که در زیر شعاع آفتاب پنهان می شوند، این نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) گفته شده است.
امام باقر (علیه السلام) در تفسیر آیه «فَلَآ أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ * الْجَوَارِ الْکُنَّسِ»(۱۲۵) فرموده است: مراد امامی است که غایب می شود... پس مانند شهاب درخشان ظاهر می گردد.
آن گاه به راوی فرمود: اگر آن زمان را درک کردی چشم هایت روشن خواهد شد.(۱۲۶)
۹۰ - حاشر:
در کتاب تذکره الائمه نقل شده است که در صحف ابراهیم، امام زمان (علیه السلام) را به اسم حاشر نامیده اند.(۱۲۷)
۹۱ - حاصد:
به معنای درو کننده، چون «او» شاخه های گمراهی و ضلالت را درو می کند و در دعای ندبه می خوانیم:
«أَینَ حاصِدُ فُرُوعِ الْغَی وَالشِّقاقِ»؛(۱۲۸)
«کجاست آن دروکننده شاخه های گمراهی و شقاوت؟»
۹۲ - حاضر:
به معنای حاضر و ناظر و موجود، یعنی «او» اگرچه غایب است ولی موجود هست، ظاهر نیست امّا حاضر است.(۱۲۹)
۹۳ - حافظ:
به معنای نگهبان و نگه دارنده، و «او» نگهبان اسرار خداوند است. لذا او را چنین زیارت می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا حافِظَ أَسْرارِ رَبِّ الْعالَمِینَ»؛(۱۳۰)
«سلام بر تو ای حافظ اسرار پروردگار جهانیان».
۹۴ - حامد:
حامد به معنای سپاس گزار و حمد کننده است.
نجم الثاقب از کتاب هدایه الکبری نقل کرده است که حامد نیز از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است.(۱۳۱)
۹۵ - حِجاب الله:
حجاب الله نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) گفته شده است.
و در زیارت نامه مربوطه می خوانیم:
«السَّلامُ عَلی حِجابِ الله الأَزَلِی الْقَدِیمِ»؛(۱۳۲)
«سلام بر حجاب و واسطه فیض الهی که ازلی و جاودانی است.»
۹۶ - حِجاج:
از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است که در نسخه ای از زیارت ناحیه مقدسه آمده است.(۱۳۳)
۹۷ - حجّت:
اگرچه تمام امامان معصوم (علیهم السلام) حجت خدایند، ولی این لفظ از القاب مشهور امام زمان (علیه السلام) گردیده است، چنانچه اگر بدون قرینه، لفظ «الحجه» به کار رود مراد آن حضرت است.
در احادیثی که از به کار بردن نام اصلی امام زمان (علیه السلام) منع فرموده اند، سؤال شده است: پس چگونه او را یاد کنیم؟
فرموده اند: بگویید حجت از آل محمّد(علیهم السلام).(۱۳۴)
و در دعای توسل می خوانیم:
«یا وَصِی الْحَسَنِ وَالْخَلَفَ الْحُجَّهَ»؛(۱۳۵)
«ای وصی و جانشین امام حسن عسکری که حجت خداوند هستی».
این هم قسمتی از زیارت صاحب الامر:
«اَلسَّلامُ عَلی بَقِیهِ الله فِی بِلادِهِ وَ حُجَّتِهِ عَلی عِبادِهِ...».(۱۳۶)
«سلام و درود بر بقیه الله در شهرها و بر حجّت خدا بر بندگانش.»
۹۸ - حُجَّه الغائب:
به معنای حجت پنهان، لقب آن حضرت است، یعنی حجت پروردگار و امامی که در پس پرده غیبت است و هرگاه خداوند صلاح بداند ظاهر خواهد شد.
در تفسیر غیب از آیه سوم سوره بقره فرموده اند:
«اَلْمُتَّقُونَ» شِیعَهُ عَلیی وَ«الغَیبُ» فَهُوَ الْحُجَّهُ الغآئِبَ؛ متقون شیعیان امیرالمؤمنین (علیه السلام) هستند و غیب همان حجت و امام غایب است.(۱۳۷)
۹۹ - حُجَّه القائم:
حجه القائم نیز از القاب آن حضرت است که به این عنوان تعبیر می شود به معنای حجتی که به امر خداوند قیام خواهد کرد و امور جامعه را اصلاح می کند.
امام باقر (علیه السلام) از قول پیامبر خدا(صلی الله علیه وآله) که اسامی امامان را هنگام معراج بر ساق عرش دیده بود، چنین نقل فرمودند:
«... اِثْنَی عَشَرَ اِسْماً مِنْهُمْ عَلِی وَ سِبْطاهُ وَ عَلِی وَ مُحَمَّدٌ وَ جَعْفَرُ وَ مُوسی وَ عَلِی وَ مُحَمَّدٌ وَ عَلِی وَ الْحَسَنُ وَ الْحُجَّهُ الْقائِم فَهذِهِ الائِمَّهُ...»(۱۳۸)
۱۰۰ - حُجَّه المَعْبود:
حجت به معنای دلیل و برهان و نشانه است، و «او» حجت خداوند متعال است، لذا این گونه به ایشان سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا حُجَّهَ الْمَعْبُودِ»؛(۱۳۹)
«سلام بر تو ای حجت خدای معبود».
و در جای دیگر می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلی حُجَّهِ الْمَعْبُودِ وَکَلِمَهِ الْمَحْمُودِ».(۱۴۰)
«سلام بر آن حجّت پروردگار و بر آن کلمه ستایش شده.»
۱۰۱ - حُجَّهِ بْنِ الحسن:
امام زمان (علیه السلام) حجت قاطع و برهان واضح خداوند، فرزند امام حسن عسکری (علیه السلام) است. و از القاب مشهور ایشان است که در موارد متعدد به ایشان سلام می دهیم:
«السَّلامُ عَلَیکَ یا مَولای یا حُجَّهَ بْنَ الْحَسَنِ صاحِبَ الزَّمانِ».(۱۴۱)
«السَّلامُ عَلَیکَ یا حُجَّهَ بْنَ الْحَسَنِ الْهَادِی الْمَهْدِی».(۱۴۲)
۱۰۲ - حجه الله:
امام زمان (علیه السلام) نیز مانند سایر امامان (علیهم السلام) حجت و خلیفه خداست:
«السَّلامُ عَلَیکَ یا حُجَّهَ الله فِی عِبادِهِ»؛(۱۴۳)
«سلام بر تو ای حجت خداوند در بین بندگانش».
و فرموده اند که نقش انگشتری آن حضرت چنین است:
«أَنَا حُجَّهُ الله وَخالِصَتُهُ»؛
«من حجت خدا و خالص و برگزیده اویم».
این عناوین نیز در موارد مختلف آمده است:
«حُجَّتِکَ عَلی خَلْقِکَ»(۱۴۴)
«حُجَّهُ الله فِی اَرْضِهِ»(۱۴۵)
«حُجَّهُ الله عَلی خَلْقِهِ»(۱۴۶)
«حُجَّهُ اللهِ»(۱۴۷)
«حُجَّتِکَ فِی اَرْضِکَ»(۱۴۸)
«حُجَّهُ الله الَّتِی لا تَخْفی (۱۴۹)
«حُجَّهُ الله عَلی مَنْ فِی الارْضِ»(۱۵۰)
۱۰۳ - حجه الْخِصام:
از دیگر القاب امام زمان (علیه السلام) حجه الخصام است که به معنای حجت خدا بر دشمنان و مجادله کنندگان می باشد و در زیارت نامه مربوط می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا حُجَّهَ الْخِصامِ»؛(۱۵۱)
«سلام بر تو ای آقایی که حجت برای دشمنان هستی».
و این نیز قسمتی از زیارت سرداب مقدّس:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... وَحُجَّهِ الْخِصامِ».(۱۵۲)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان، و بر آن که حجّت بر دشمنان است».
۱۰۴ - حجه ربِّ العالمین:
یعنی حجّت و برهان پروردگار جهانیان که در اعمال و دعای روز جمعه می خوانیم:
«وَصَلِّ عَلَی الْخَلَفِ الْهادِی الْمَهْدِی، إِمامِ الْمُؤْمِنِینَ وَوارِثِ الْمُرْسَلِینَ وَحُجَّهِ رَبِّ الْعالَمِینَ»؛(۱۵۳)
«خدایا درود فرست بر آن جانشین امامان، آن هادی و مهدی که امام مؤمنان و وارث پیامبران و حجت پروردگار جهانیان است».
۱۰۵ - حقّ:
به معنای راستی و حقیقت می باشد و یکی از نام های امام زمان (علیه السلام) است.
«او» حقّ است چون تمام حالات و صفات و افعال و اقوال و اوامر و نواهی اش حقّ است.
از امام باقر سؤال شد: آیه شریفه «وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْباطِلُ»(۱۵۴) یعنی چه؟ فرمود:
«اِذا قامَ الْقائِمُ ذَهَبَتْ دَوْلَهُ الْباطِلِ؛ چون قائم ظهور کند، دولت باطل برود».(۱۵۵)
و در زیارت آن حضرت می گوییم:
«أَشْهَدُ أَنَّکَ الْحَقُّ الثّابِتُ الَّذِی لا عَیبَ فِیهِ»؛(۱۵۶)
«گواهی می دهم که تو آن حقّ ثابت ابدی هستی که از هر عیب و نقصی پاک و منزه می باشی».
و در زیارت دیگر می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَی الْحَقِّ الْجَدِیدِ وَالْعالِمِ الَّذِی عِلْمُهُ لا یبِیدُ»؛(۱۵۷)
«سلام بر امام به حقّ که مجدّد است و دانشمندی که علم و دانش او پایان ناپذیر است».
۱۰۶ - حلیم:
به معنای بردبار و صبور است که از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد، «او» که این غیبت طولانی را باید با صبر و بردباری طی کند، به «حلیم» لقب داده شده است.
چنان که در اعمال نیمه شعبان و دعا برای امام زمان (علیه السلام) می گوییم:
«اَللّهُمّ بِحَقِّ لَیلَتِنا وَمَولُودِها... سَیفُ الله الَّذِی لاینْبُو وَنُورُهُ الَّذِی لایخْبُو وَذُو الْحِلْمِ الَّذِی لایصْبُو...»؛(۱۵۸)
«خدایا به حقّ این شب و مولود آن... آن شمشیر خدایی که کند نمی شود، آن نور الهی که خاموش نمی گردد و آن بردباری که شکیبایی اش را از دست نمی دهد...».
۱۰۷ - حمد:
به معنای سپاس و ستایش، که در کتاب الهدایه الکبری از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است.(۱۵۹)
۱۰۸ - حی:
«اَشْهَدُ اَنَّکَ حَی لا تَمُوتُ حَتّی تُبْطِلَ الْجِبْتَ وَالطّاغُوتَ...»(۱۶۰)
«من گواهی می دهم که تو حی و زنده ای تا این که جبت و طاغوت را باطل نمایی.»
۱۰۹ - خائف:
به معنای ترسنده و نگران، از القاب امام زمان (علیه السلام) است. چون از جور دشمنان اسلام و خدا، مخفی و غایب شده اند؛ چنان که از امام باقر (علیه السلام) نقل شده: آن گاه که امام زمان (علیه السلام) ظهور کند، آیه:«فَفَرَرْتُ مِنکُمْ لَمّا خِفْتُکُمْ فَوَهَبَ لِی رَبِّی حُکْماً وَجَعَلَنِی مِنَ الْمُرْسَلِینَ»(۱۶۱) را تلاوت خواهد کرد.(۱۶۲)
لذا در زیارت آن حضرت می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الْمُهَذَّبُ الْخآئِفُ»؛(۱۶۳)
«سلام بر تو ای پاکیزه جان و از ترس پنهان».
۱۱۰ - خاتم الائمّه:
از دیگر القاب امام زمان (علیه السلام) خاتم الائمه است، چون امامت به «او» منتهی می گردد و «او» آخرین امامِ آخرین پیامبر است.(۱۶۴)
و پیامبر اعظم (صلی الله علیه وآله) در خطبه غدیر فرمود:
«... أَلا إنَّ خاتِمَ الأئِمَّهِ مِنّا القائِمَ المَهْدِی...»؛(۱۶۵)
«... همانا آخرین امام از ماست، آن که قائم و مهدی است...».
۱۱۱ - خاتم الاوصیاء:
این از القاب شایع امام زمان (علیه السلام) است که وصایت به ایشان ختم می شود.
و چنان که خادم امام حسن عسکری (علیه السلام) می گوید، امام زمان (علیه السلام) این گونه خود را معرفی فرمود:
«أَنَا خاتِمُ الأَوْصِیآءِ وَبِی یدْفَعُ الله الْبَلاءَ عَنْ اَهْلِی وَشِیعَتِی...»؛(۱۶۶)
«منم خاتم الاوصیاء، به سبب من خداوند بلا را از اهل من و شیعیان دفع می کند، آنان که دین خدا را بر پا می دارند...».
۱۱۲ - خازن:
به معنای خزانه دار و گنجینه دار است که امام زمان (علیه السلام) را به خازن لقب داده اند و در زیارت نامه اش می گوییم:
«... وَأَنَّکَ خازِنُ کُلِّ عِلْمٍ...»؛(۱۶۷)
«همانا تو خزانه دار هر علمی هستی».
۱۱۳ - خالص (یا خالصه الله):
به معنای گزینش شده و برگزیده و پاک و خالص است و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) می باشد؛ چنان که در نقش نگین انگشتری آن حضرت آمده:
«أَنَا حُجَّهُ الله وَخالِصَتُهُ»؛
«من حجت خدا و خالص و برگزیده اویم».
۱۱۴ - خجسته:
این نام را نجم الثاقب به نقل از کتاب ذخیره آورده است که در کتاب کندر آل فرنگیان، موعود آخر الزمان را به نام «خجسته» می خوانند.(۱۶۸)
۱۱۵ - خداشناس:
در تذکره الائمه از کتاب شاکمون نقل شده که نام آن کسی که در آخرالزمان می آید و جهان را صاحب می شود و دین خدا را یکی می کند، خداشناس است.(۱۶۹)
۱۱۶ - خسرو:
به معنای فرمانروا و پادشاه است.
از کتاب ذخیره و تذکره الائمه نقل شده که نام منجی و موعود آخر الزمان نزد نصاری «خسرو» است.(۱۷۰)
۱۱۷ - خَلَف:
خلف به معنای جانشین و قائم مقام است. امام زمان (علیه السلام) جانشین و خلف جمیع انبیا و اوصیای گذشته است و جمیع علوم و صفات و حالات و خصایص آنان را دارد و مواریث الهی که از آنان به یکدیگر می رسیده، همه آن ها نزد او جمع است.(۱۷۱)
این نام به طور مکرر در احادیث و دعاهای امامان (علیهم السلام) آمده است.
در اعمال روز جمعه می خوانیم:
«وَصَلِّ عَلَی الْخَلَفِ الْهادِی الْمَهْدِی، إِمامِ الْمُؤْمِنِینَ وَوارِثِ الْمُرْسَلِینَ وَحُجَّهِ رَبِّ الْعالَمِینَ»؛(۱۷۲)
«خدایا درود فرست بر آن جانشین امامان، آن هادی و مهدی که امام مؤمنان و وارث پیامبران و حجت پروردگار جهانیان است».
و این هم بخشی از دعای توسل خطاب به امام زمان (علیه السلام):
«یا وَصِی الْحَسَنِ وَالْخَلَفَ الْحُجَّهَ»؛(۱۷۳)
«ای جانشین امام حسن عسکری (علیه السلام) و ای جانشین شایسته و حجت الهی!»
۱۱۸ - خَلَف الباقی:
از اسامی امام زمان (علیه السلام) خلف الباقی است.
چون او تنها خلیفه و جانشین باقیمانده پیامبر(صلی الله علیه وآله) می باشد و چنین است قسمتی از زیارت مربوط به ایشان:
«اَلَلّهُمَّ إِنِّی أُشْهِدُکَ... وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِی والْخَلَفِ الْباقِی...»؛(۱۷۴)
«خدایا شهادت می دهم... که حسن بن علی عسکری و جانشین باقیمانده او امام من هستند».
۱۱۹ - خَلَف الحسن:
یعنی جانشین امام حسن عسکری (علیه السلام) که امام یازدهم و جانشین یازدهم پیامبر خدا بوده، پس او امام دوازدهم و دوازدهمین امام خواهد بود..
و این است قسمتی از زیارت سرداب مقدّس:
«مَولای صاحِبَ الزَّمانِ... وَالْخَلَفَ الْحَسَنِ»(۱۷۵)
«ای مولا و آقای من ای صاحب الزمان... و ای جانشین امام حسن عسکری....»
۱۲۰ - خَلف سَلَف:
به معنای جانشین پیشینیان است. چون او جانشین و آخرین جانشین همه انبیا و اوصیای الهی است.(۱۷۶)
در زیارت آن حضرت می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلی خَلَفِ السَّلَفِ وَصاحِبِ الشَّرَفِ»؛(۱۷۷)
«سلام بر جانشین اولیای گذشته که صاحب مجد و شرافت است».
و در زیارت دیگر می گوییم:
«السَّلامُ عَلَیکَ یا خَلَفَ السَّلَفِ»؛
«سلام بر تو ای جانشین گذشتگان!»
۱۲۱ - خلف صالح:
از القاب امام زمان (علیه السلام) خلف صالح است.(۱۷۸)
امام صادق (علیه السلام) فرموده است:
خلف صالح از فرزندان من است، اوست مهدی، اسم او محمّد و کنیه اش ابوالقاسم و در آخرالزمان قیام می کند.(۱۷۹)
۱۲۲ - خلیفه:
خلیفه مطلق در زمان کنونی امام زمان (علیه السلام) است؛ چنان که در زیارت ائمه سرّ من رأی به پدر امام زمان (علیه السلام) یعنی امام عسکری (علیه السلام) خطاب می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا أَبا خَلِیفَهِ...»؛(۱۸۰)
«سلام بر تو ای آقایی که پدر خلیفه هستی».
۱۲۳ - خلیفه الله:
مهدی موعود و امام زمان (علیه السلام) خلیفه خداست، لذا یکی از اصلی ترین عنوان ها و مقامات او «خلیفه الله» است.
پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) فرمود:
«یخْرُجُ الْمَهْدِی وَعَلی رَأْسِهِ غِمامَهٌ فِیها مُنادٍ ینادِی: هذَا الْمَهْدِی خَلِیفَهُ الله فَاتَّبِعُوهُ»؛(۱۸۱)
«مهدی خروج می کند و بر سر او ابری است که از آن ندا می آید: این مهدی خلیفه الله است، پس او را پیروی کنید».
و در جای دیگر نیز آمده است:
«خَلِیفَتِکَ فِی أَرْضَکَ»(۱۸۲)
«خَلِیفَتِکَ فِی بِلادِکَ».(۱۸۳)
۱۲۴ - خلیفه الاتقیا:
از القاب شریف امام زمان (علیه السلام) خلیفه الاتقیا است؛ یعنی جانششین پرهیزکاران و خداترسان، و شاهدش آنجاست که امام حسن عسکری (علیه السلام) هنگام تولد ایشان فرمود: سخن بگو ای خلیفه اتقیا و ای نور اصفیا....(۱۸۴)
۱۲۵ - خلیل:
به معنای دوست است و از القاب مهدی موعود (علیه السلام) می باشد،(۱۸۵) چون او نیز مانند خدا و رسول خدا(صلی الله علیه وآله) با بندگان و مؤمنان دوست و مهربان است؛ این آیه شریفه در مورد پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) نازل شده است. «لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیهِ ما عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیکُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ»(۱۸۶)
به یقین، رسولی از خود شما به سویتان آمد که رنج های شما بر او سخت است؛ و اصرار بر هدایت شما دارد؛ و نسبت به مؤمنان، رئوف و مهربان است!
۱۲۶ - خُنَّس:
به معنای سیاره ای که پنهان شده و دوباره بر می گردد.
از امام باقر (علیه السلام) در مورد آیه «فَلَآ أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ»(۱۸۷) سؤال کردند، فرمود:
«إمام یخنس فی زمانه عند انقطاع من علمه عند الناس سنه ستین ومأتین ثمّ یبدو کالشهاب الواقد فی ظلمه اللیل فان ادرکت ذلک قرّت عینک»؛(۱۸۸)
«امامی است که پنهان می شود زمانی که مردم از علم او منقطع می شوند در سال ۲۶۰ ه. ق. آن گاه همانند شهاب درخشنده در شب تاریک ظاهر می شود. اگر آن هنگام را درک کردی چشمت روشن خواهد شد. »
۱۲۷ - خَوّاض الْغَمَرات:
به معنای بسیار خوض کننده و کسی که در آب ها و دریاهای زیاد خوض و غواصی می کند و در آن فرو می رود.
این عنوان در زیارت سرداب توسط سید بن طاووس نقل شده است:
«السَّلامُ عَلی مُفَرِّجِ الْکُرُباتِ وَخَوَّاضِ الْغَمَرَاتِ»؛(۱۸۹)
«سلام بر آن آقایی که برطرف کننده مشکلات و اندوه ها و غور کننده آب های فراوان است».
۱۲۸ - خَیر(۱۹۰):
به معنای فرد بسیار نیکوکار است و چه کسی از او نیکوکارتر؟ که روزی می آید و هرچه شرّ و ظلم و فساد است را بر می کَند و آنچه خیر و عدالت است را بر پا می دارد.
۱۲۹ - خَیر مَنْ تَقَمَّص وَارْتَدی:
به معنای بهترین فردی که جامه و لباس پوشیده است، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده؛ چنان که در قسمتی از زیارت صاحب الامر چنین است:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَخَیرِ مَنْ تَقَمَّصَ وَارْتَدی.(۱۹۱)
«خدایا درود فرست بر ولی عصر و حجّت خودت در زمین... و بر بهترین کسی که پیراهن و ردا بر تن کند.»
۱۳۰ - خِیرَهُ الله:
به معنای برگزیده خدا و بهترین خلق اوست، از القاب و اوصاف امامان؛ از جمله امام زمان (علیه السلام) می باشد که پیامبر اعظم (صلی الله علیه وآله) در این زمینه فرمودند:
«اَنْتَ یا عَلِی وَ وُلْدُکَ خِیرَهُ الله مِنْ خَلْقِهِ....»؛(۱۹۲)
«ای علی! تو و فرزندانت برگزیدگان خدا در بین بندگان هستید.»
۱۳۱ - دابَّهُ الأرض:
اگرچه در اخبار زیادی این لقب برای امیرالمؤمنین (علیه السلام) بیان شده است،(۱۹۳) لکن از خود امام علی (علیه السلام) هم نقل شده است:
«اِنَّها خُرُوجُ دابَّهِ الأَرْضِ مِنْ عِنْدِ الصَّفا مَعَها خاتَمُ سُلَیمانَ وَعَصا مُوسی وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِها»؛(۱۹۴)
«همانا آن خروج دابه الارض است از جانب صفا، که انگشتر سلیمان و عصای موسی همراه اوست و خورشید از مغرب آن طلوع خواهد کرد».
و شاید از این آیه شریفه اقتباس شده باشد:
«وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیهِمْ أَخْرَجْنا لَهُمْ دَآبَّهً مِّنَ الْأَرْضِ تُکَلِّمُهُمْ أَنَّ النّاسَ کانُوا بِآیاتِنا لَا یوقِنُونَ»؛(۱۹۵)
و هنگامی که فرمان عذاب آن ها رسد (و در آستانه رستاخیز قرار گیرند)، جنبنده ای را از زمین برای آن ها خارج می کنیم که با آنان تکلّم می کند (و می گوید) که مردم به آیات ما ایمان نمی آوردند.
۱۳۲ - داعی:
از القاب امام زمان (علیه السلام) داعی است، به معنای دعوت کننده و خواننده؛ چنان که در زیارت آل یاسین می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا داعِی الله وَرَبّانِی آیاتِهِ»؛(۱۹۶)
«سلام بر تو ای دعوت کننده از جانب خدا و برای خدا...».
و در اعمال روز جمعه می گوییم:
«اَللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلی وَلِیکَ الْمُحْیی سُنَّتَکَ الْقآئِمِ بِأَمْرِکَ، الدّاعِی إِلَیکَ»؛(۱۹۷)
«خدایا درود فرست بر ولی خودت که سنّت تو را احیا می کند و به امر تو قیام می نماید و به سوی تو دعوت می کند».
در هر شب ماه رمضان نیز در دعای افتتاح می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ اجْعَلْهُ الدّاعِی إِلی کِتابِکَ»؛(۱۹۸)
«خدایا او را مقرر فرما تا دعوت کننده به کتاب آسمانی ات باشد».
و در جای دیگر آمده است:
«وَالدّاعِی إِلی سَبِیلِکَ»؛(۱۹۹)
«او دعوت کننده به راه خداست».
۱۳۳ - دافِع البلا:
به معنای دفع کننده بلا و خطرات، از القاب و اوصاف صاحب الزمان (علیه السلام) است؛ چنان که امام زمان (علیه السلام) این گونه خود را معرفی فرمود:
«أَنَا خاتِمُ الأَوْصِیآءِ وَبِی یدْفَعُ الله الْبَلاءَ عَنْ اَهْلِی وَشِیعَتِی...»؛(۲۰۰)
«منم خاتم الاوصیاء، به سبب من خداوند بلا را از اهل من و شیعیان دفع می کند،...».
۱۳۴ - دلیل:
دلیل به معنای دلالت کننده و راهنما، از القاب امام زمان (علیه السلام) است، چون «او» راهنمای خلق است به سوی خدا، امام و رهبر جهانیان است.
که در دعای روز جمعه می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلی وَلِیکَ... الدَّلِیلِ عَلَیکَ»؛(۲۰۱)
«خدایا درود فرست بر ولی خودت که خلق را به راه تو دلالت و راهنمایی می کند».
و در زیارت مخصوص آن حضرت؛ یعنی زیارت آل یاسین می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا حُجَّهَ الله وَدَلِیلَ إِرادَتِهِ»؛(۲۰۲)
«سلام بر تو ای حجت خدا بر خلق عالم و راهنمای بندگان به مقاصد الهی».
۱۳۵ - دَیان:
به معنای حاکم و رسیدگی کننده امور و نیز به معنای پاداش دهنده است و از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد.
و این است فرازی از زیارت آل یاسین:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بابَ الله وَدَیانَ دِینِهِ»؛(۲۰۳)
«سلام بر تو ای درگاه لطف و رحمت خدا و حاکم و حافظ دین خدا».
۱۳۶ - دین المَأثُور:
از دیگر القاب امام زمان (علیه السلام) است که در زیارت ایشان می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَی الدِّینِ الْمَأْثُورِ وَالْکِتابِ الْمَسْطُورِ»؛(۲۰۴)
«سلام بر آن دین (یعنی حافظ دین) که از پیامبر رحمت رسیده است و سلام بر آن کتاب رقم شده به قلم حکمت الهی».
همچنین برایش دعا می کنیم:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ صاحِبِ الضِّیاءِ وَالنُّورِ وَالدِّینِ الْمَأْثُورِ»؛(۲۰۵)
«سلام و برکات خدا و تحیات و درودهای بی پایان الهی بر مولای ما صاحب الزمان آن که صاحب نور و صاحب دین خداست».
۱۳۷ - ذات انتقام الله:
به معنای انتقام گیرنده الهی و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده است.(۲۰۶)
۱۳۸ - ذوالْبِرّ:
به معنای دارنده نیکی ها است و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) که او مجمع تمام صفات عالی و نیکوست؛ لذا در دعای ندبه به دنبال آن عزیز سفر کرده می گردیم که:
«أَینَ صَدْرُ الْخَلآئِقِ ذُو الْبِرِّ وَالتَّقْوی؛(۲۰۷)
«کجاست صدرنشین عالم که دارای حدّ اعلای تقوا و نیکوکاری است».
۱۳۹ - ذوالتَّقْوی:
به معنای صاحب تقوا و نیکو کاری و خداترسی است و از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد؛ چنان که در دعای ندبه که از زبان معصوم صادر شده است، آن حضرت را این گونه توصیف نموده اند:
«أَینَ صَدْرُ الْخَلآئِقِ ذُو الْبِرِّ وَالتَّقْوی؛(۲۰۸)
«کجاست صدرنشین عالم که دارای حدّاعلای تقوا ونیکوکاری است».
۱۴۰ - ذوالْحِلْم:
یعنی صاحب صبر و شکیبایی، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است؛ چنان که در اعمال نیمه شعبان و دعا برای امام زمان (علیه السلام) می گوییم:
«اَللّهُمّ بِحَقِّ لَیلَتِنا وَمَولُودِها... سَیفُ الله الَّذِی لاینْبُو وَنُورُهُ الَّذِی لایخْبُو وَذُو الْحِلْمِ الَّذِی لایصْبُو...»؛(۲۰۹)
«خدایا به حقّ این شب و مولود آن... آن شمشیر خدایی که کند نمی شود و آن نور الهی که خاموش نمی گردد و آن بردباری که شکیبایی اش را از دست نمی دهد...».
۱۴۱ - ذوالسَّیف:
به معنای دارنده و صاحب شمشیر است و از القاب امام زمان گفته شده است.(۲۱۰)
۱۴۲ - ذوالفقار:
به معنای صاحب شمشیر دو دم است.
«السَّلامُ عَلَی الإِمامِ الْعالِمِ، الْغائِبِ عَنِ الأَبْصارِ، وَالحاضِرِ فِی الاَمْصارِ، وَالغائِبِ عَنِ الْعُیونِ، وَالحاضِرِ فِی الأَفْکَارِ، بَقِیهِ الأَخْیارِ الوَارِثِ ذُوالْفَقارِ الَّذِی یظْهَرُ فِی بَیتِ الله الْحَرامِ...»؛(۲۱۱)
«سلام بر آن امامی که از دیده ها پنهان است، امّا در شهرها حاضر است. از چشم ها غایب است امّا در خاطره ها حاضر است، باقی مانده نیکان، همان که وارث ذوالفقار است، و آن را در خانه خدا ظاهر می سازد».
۱۴۳ - راهنما:
از کتاب باتنکل که از بزرگان کفر می باشد، نقل شده است: آن کسی که در آخرالزمان به وجود و ظهور او بشارت داده شده، راهنما نام دارد.(۲۱۲)
۱۴۴ - رَبّانی:
از اوصاف حضرت مهدی (علیه السلام)، ربّانی است که در زیارت آل یاسین به آن توصیف شده است:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا داعِی الله وَرَبّانِی آیاتِهِ»؛(۲۱۳)
«سلام بر تو ای امام زمان که دعوت کننده خلق به سوی خدایی و مظهر آیات الهی و مرآت صفات ربّانی هستی».
۱۴۵ - رَبُّ الأرض:
به معنای صاحب، مالک و پرورش دهنده زمین است،(۲۱۴) و بر اساس آیه شریفه «وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها»(۲۱۵) اخباری از امامان معصوم (علیهم السلام) رسیده است که آیه را چنین تفسیر کرده اند.
امام صادق در تفسیر آیه «وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها» فرمود:
«رَبُّ الأَرْضِ إِمامُ الْأَرْضِ»؛(۲۱۶) «رب زمین یعنی همان امام زمین است».
لذا فرمود: «إِنَّ قآئِمَنا إِذا قامَ اَشْرَقَتِ الارْضُ بِنُورِ رَبِّها وَاسْتَغْنَی الْعِبادُ عَنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ وَذَهَبَتِ الظُّلْمَه»؛(۲۱۷)
«آن گاه که قائم ما قیام نماید، زمین به نور ربّ و امام خود روشن می شود و بندگان خدا از نور خورشید بی نیاز می گردند و تاریکی پایان می یابد».
۱۴۶ - رَبِیعُ الانام:
«او» بهار است، بهار خلایق، و لذا به این عنوان توصیف شده و چنین بر او سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلی رَبِیعِ الْأَنامِ وَنَضْرَهِ الْأَیامِ»؛(۲۱۸)
«سلام بر آن که بهار پاینده اهل عالم است و صفا و شادی بخش روزگاران است».
۱۴۷ - رَجاء الأُمّه(۲۱۹):
او امید تمام امّت است، نه تنها امّت اسلام که امید همه مستضعفان و محرومان و جهانیان است، پس شایسته است با این وصف اشاره شود.
۱۴۸ - رجل:
آن گاه که بردن نام امام زمان (علیه السلام) به خاطر خفقان و ظلم بی حد دستگاه خلافت، جرم بود و مجازات سنگین داشت، از ایشان به «الرجل» تعبیر می کردند، چنان که از سایر امامان نیز گاه به «القائم» تعبیر می نمودند.(۲۲۰)
مثلاً در حدیث امام باقر (علیه السلام) می فرماید:
«لا تَزَالُونَ تَمُدُّونَ أَعناقَکُمْ إِلَی «الرَّجُلِ» مِنّا، تَقُولُونَ: هُوَ هَذا، فَیذَهَبُ الله بِهِ حَتّی یبْعَثَ الله لِهذَا الأَمْرِ مَنْ لا تَدْرُونَ وُلِدَ أَمْ لَمْ یولَدْ، خُلِقَ أَوْ لَمْ یخْلَقْ»؛(۲۲۱)
«شما پیوسته گردن های خود را به سوی مردی از ما دراز می کنید و منتظر او هستید، می گویید: او این است، پس خدا او را می برد، تا این که خداوند برای این امر کسی را مبعوث خواهد کرد که شما نمی فهمید آیا متولد شده یا نه، خلق شده یا نه».
در ضمن کلمه «رجال» در آیه شریفه «وَبَینَهُما حِجابٌ وَعَلَی الأَعْرَافِ رِجالٌ یعْرِفُونَ کُلاًّ بِسِیماهُمْ وَنادَوْا أَصْحابَ الْجَنَّهِ أَن سَلامٌ عَلَیکُمْ لَمْ یدْخُلُوها وَهُمْ یطْمَعُونَ»(۲۲۲) نیز به امامان تفسیر شده است؛ چنان که سلمان فارسی می گوید: بیش از ده بار شنیدم که رسول خدا(صلی الله علیه وآله) به امیر المؤمنین (علیه السلام) می فرمود:
«یا عَلِی! اِنَّکَ وَ الاوْصِیاءُ مِنْ وُلْدِکَ اَعْرافٌ بَینَ الْجَنَّهِ وَالنّارِ...»(۲۲۳)
«ای علی! همانا تو و جانشینان از فرزندانت در قیامت در اعراف بین بهشت و دوزخ قرار خواهید گرفت.»
همچنین امام باقر (علیه السلام) فرموده اند:
«اَلرِّجالُ هُمُ الائِمَّهُ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ» رجال، همان امامان از اهل بیت پیامبرند.(۲۲۴)
۱۴۹ - رحمت واسعه:
امام زمان (علیه السلام) مظهر تام و تمام رحمت خداوند است، رحمت گسترده، او سراسر رحمت و برکت است، به همین جهت این گونه به او سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا... الرَّحْمَهُ الْواسِعَهُ»؛(۲۲۵)
«سلام بر تو ای رحمت واسع الهی بر تمام عالمیان».
۱۵۰ - رشید:
به معنای کامل و کمال یافته، از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده است؛ چنان که در زیارت مربوط به ایشان عرض می کنیم:
«السَّلامُ عَلَیکَ اَیهَا الإِمامُ الوَحِیدُ وَالْقائِمُ الرَّشِیدُ».(۲۲۶)
«سلام بر تو ای امام یگانه و ای قیام کننده و رشید.»
۱۵۱ - رضی:
به معنای پسندیده، از اوصاف مهدی موعود (علیه السلام) است، چنان که در دعایی برای ایشان می گوییم:
«اَللَّهُمَّ فَإِنّا نَشْهَدُ... وَأَنَّهُ الْهادِی الْمُهْتَدِی الطّاهِرُ، التَّقِی النَّقِی، الرَّضِی الزَّکِی»؛(۲۲۷)
«خدایا شهادت و گواهی می دهیم که... و او هادی خلق، رهبر پاک سیرت باتقوای پاکیزه صفات پسندیده و آراسته به هر کمال...».
۱۵۲ - رُکن الاَنام:
رکن رکین و تکیه گاه خلایق، امام زمان (علیه السلام) است و رکن الانام از اوصاف مهدی موعود (علیه السلام) می باشد. لذا در زیارت سرداب مقدّس می گوییم:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... وَرُکْنِ الأنامِ».(۲۲۸)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان،... او که رکن و تکیه گاه مردمان است».
۱۵۳ - رکن الایمان:
به معنای اساس، پایه و عمود ایمان و اسلام است که امام زمان (علیه السلام) را با آن توصیف نموده اند؛ چنان که در زیارت ایشان آمده است:
«السَّلامُ عَلَیکَ یا رُکْنَ الإِیمانِ».(۲۲۹)
«سلام بر تو ای رکن اساسی ایمان.»
۱۵۴ - زکی:
به معنای آراسته و پاک شده، مانند سایر امامان از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است:
«اَللَّهُمَّ فَإِنّا نَشْهَدُ... أَنَّهُ الْهادِی الْمُهْتَدِی الطّاهِرُ، التَّقِی النَّقِی، الرَّضِی الزَّکِی»؛(۲۳۰)
«خدایا شهادت و گواهی می دهیم که او هادی خلق، رهبر پاک سیرت و با تقوای پاکیزه صفت و پسندیده و آراسته به هر کمال است...».
۱۵۵ - زند افریس:
کتاب ذخیره الالباب و تذکره الأئمه از کتاب ماریاقین نقل کرده اند که اسم موعود آخر الزمان و امام عصر (علیه السلام) در آنجا زند افریس است، لکن احتمال داده که زند اسم کتاب باشد که منسوب به زردشت است و افریس نام امام زمان (علیه السلام) است.(۲۳۱)
به هر حال آن ها هم اعتقاد دارند که روزی یک مصلح کل خواهد آمد و جهان را اصلاح خواهد کرد؛ اگرچه هر کسی او را به نامی صدا می زند.
۱۵۶ - سابق:
به معنای سبقت گیرنده می باشد که از اوصاف امام زمان (علیه السلام) و سایر امامان (علیهم السلام) گفته شده است. همچنین در تفسیر آیه السابق بالخیرات، فرموده اند: امام همان سابق به خیرات است.(۲۳۲)
۱۵۷ - ساعه:
امام رضا (علیه السلام) می فرماید: از رسول خدا(صلی الله علیه وآله) سؤال شد:
«مَتی یخْرُجُ الْقائِمُ مِنْ ذُرِیتِکَ؟ فَقالَ (صلی الله علیه وآله): مَثَلُهُ مَثَلُ السّاعَهِ لَا یجَلِّیها لِوَقْتِها إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّماوَاتِ وَالأَرْضِ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَهً...»(۲۳۳)
«قائم از فرزندان شما چه موقع ظهور خواهد کرد؟ پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) فرمود: زمان ظهور او همانند قیامت است که هیچ کس جز او (نمی تواند) وقت آن را آشکار سازد؛ (اما قیام قیامت، حتی) در آسمان ها و زمین، سنگین (و بسیار پر اهمیت) است؛ و جز به طور ناگهانی، به سراغ شما نمی آید!...»(۲۳۴)
در حدیثی از امام صادق (علیه السلام) نیز نقل شده که مراد از «السّاعَهِ» در آیات قرآن به امام زمان (علیه السلام) تأویل شده است. امام صادق (علیه السلام) فرمود:
«لِأَنَّهُ هُوَ السَّاعَهُ الَّتِی قالَ الله تَعَالی «یسَْلُونَکَ عَنِ السّاعَهِ»»؛(۲۳۵)
«امام زمان همان «الساعه» است که خداوند فرموده، مردم درباره آن از تو سؤال می کنند».
از جمله آیات در این زمینه «وَعِندَهُ عِلْمُ السّاعَهِ»،(۲۳۶) «هَلْ ینظُرُونَ إِلَّا السّاعَهَ»،(۲۳۷) «یسَْلُونَکَ عَنِ السّاعَهِ»(۲۳۸) است.
البته «ساعه» در قرآن بیشتر به معنای قیامت است؛ لکن چون مشابهت های زیادی بین این دو هست، به روز ظهور امام زمان (علیه السلام) و خود امام زمان (علیه السلام) نیز ساعه گفته شده است؛ از جمله شباهت ها این است که زمان آن ها را کسی نمی داند، ناگهانی می آیند، خسوف و مسخ روی می دهد، آتشی ظاهر می شود، مؤمن از کافر جدا می شوند، کافر هلاک می گردد و مؤمن نجات می یابد و خداوند آمدن آن ها را
به تمام انبیا و اوصیا سفارش کرده است.
در آیه «وَذَکِّرْهُم بِأَیامِ اللهِ»(۲۳۹) که به موسی (علیه السلام) خطاب شده، تأویل و تفسیر شده است که ایام الله سه روز است:
۱ - روز ظهور قائم. ۲ - روز رجعت. ۳ - روز قیامت.(۲۴۰)
۱۵۸ - سبب المُتَّصل:
به معنای سبب اتصال و ارتباط آسمان و زمین و واسطه فیض از جانب خداوند بر مخلوقات است.
و در دعای ندبه دنبال او می گردیم که:
«أَینَ السَّبَبُ الْمُتَّصِلُ بَینَ الْأَرْضِ وَالسَّمآءِ»؛(۲۴۱)
«کجاست آن که وسیله اتصال بین آسمان و زمین است و علوم آسمانی و الهی را به اهل زمین می رساند».
و در زیارت به ایشان سلام می کنیم:
«السَّلامُ عَلَیکَ اَیهَا السَّبَبُ الْمُتَصِلُ بَینَ الأَرْضِ وَالسَّمآءِ»؛(۲۴۲)
«سلام بر تو ای سبب اتصال بین آسمان و زمین».
۱۵۹ - سَبْعُ الْمَثانی:
از امام صادق (علیه السلام) در مورد آیه «وَلَقَدْ آتَیناکَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِیمَ»(۲۴۳) سؤال کردند، فرمود:
«اِنَّ ظاهِرَها الْحَمْدُ وَ باطِنَها وَلَدُ الْوَلَدِ وَ السّابِعُ مِنْهَا الْقائِمُ.»
«ظاهر این آیه سوره حمد است (که هفت آیه دارد و دوبار نازل شده) و باطن آن فرزندِ فرزند است و هفتمین آنان حضرت قائم (علیه السلام) است.»
۱۶۰ - سبیل الله:
به معنای خط و راه خدا، یعنی هر که بخواهد به خدا برسد باید از ایشان بگذرد، هر راهی غیر از طریق ایشان به ناکجا آباد ختم می شود؛ لذا در زیارت آن جناب عرض می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا سَبِیلَ الله الَّذِی مَنْ سَلَکَ غَیرَهُ هَلَکَ»؛(۲۴۴)
«سلام بر تو ای راه خدا (که راه و روش تو راه خداست) که هر کسی راهی غیر از راه تو را انتخاب و حرکت کند هلاک خواهد شد، چون هر راهی غیر از راه تو، ضلالت و هلاکت است».
۱۶۱ - سِتْرَ الله:
به معنای پوشش و پرده خداست.
«یا وِقایهَ الله وَ سِتْرَهُ وَ بَرِکَتَهُ أَغْنِنِی اَدْنِنِی أَدْرِکْنِی صِلْنِی بِکَ وَلا تَقْطَعْنِی»(۲۴۵)
«ای سپر خدا و ای پوشش و برکت او مرا به برکت او بی نیاز کن و به او نزدیک گردان و به حرز و پناه خدا مرا در برگیر و مرا به خود متصل نما و از خود جدانفرما.»
۱۶۲ - سِدْرَهُ الْمُنْتَهی:
از هدایه الکبری صفحه ۳۲۸ نقل شده است که سدره المنتهی نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد.(۲۴۶)
سدره المنتهی نام درختی در آسمان هفتم است که در آیه ۱۴ سوره نجم نیز ذکر شده است، شاید این مطلب نیز از آن آیه اقتباس شده باشد.(۲۴۷)
و در زیارت آن حضرت چنین آمده است:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا ناظِرَ شَجَرَهِ طُوبی وَسِدْرَهِ الْمُنْتَهی؛(۲۴۸)
«سلام بر تو ای نظاره گر درخت طوبی و سدره المنتهی!»
۱۶۳ - سدید:
به معنای محکم و استوار است که از القاب امام زمان (علیه السلام) گفته شده است(۲۴۹).
۱۶۴ - سِراج الله:
به معنای چراغ فروزان الهی است، چنان که در زیارت نامه ها خوانده می شود:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی نُورِکَ وَسِراجِکَ، وَوَلِی وَلِیکَ...»؛(۲۵۰)
«خدایا درود و رحمت فرست بر نور و سراج خودت و ولی ولی تو...».
۱۶۵ - سِرّ الله:
به معنای راز و سرّ خدا می باشد که آن را از اوصاف حضرت مهدی (علیه السلام) گفته اند، چنان که در زیارت نامه مادر آن حضرت می خوانیم:
«أَشْهَدُ أَنَّکِ أَحْسَنْتِ الْکَفالَهَ وَأَدَّیتِ الْأَمانَهَ، وَاجْتَهَدْتِ فِی مَرْضاتِ اللهِ، وَصَبَرْتِ فِی ذاتِ اللهِ، وَحَفِظْتِ سِرَّ اللهِ»؛(۲۵۱)
«گواهی می دهم که تو کفالت او را به خوبی انجام دادی و امانت را ادا کردی و در راه رضای خدا کوشش نمودی، و برای خدا صبر کردی و از سر الله محافظت نمودی».
و پیامبر(صلی الله علیه وآله) فرمود:
«إِنّ هذَا الأَمْرَ مِنْ أَمْرِ الله وَسِرّ مِنْ سِرِّ اللهِ»؛(۲۵۲)
«همانا این امری از امور خدا و سرّی از اسرار خداوند است».
۱۶۶ - سروش ایزد:
کتاب شریف نجم الثاقب از تذکره الائمه نقل کرده که سروش ایزد نام موعود آخر الزمان در کتاب زمزم زردشت است، یعنی آن ها هم منتظرند تا آن منجی عالم بیاید و همه را نجات دهد، حال اسمش را هرچه گذاشته اند.(۲۵۳)
سروش ایزد به معنای نوا و ندای الهی و غیبی است.
۱۶۷ - سَفینهُ النّجاه:
به معنای کشتی نجات، یکی از اوصافی است که برای همه امامان و اهل بیت (علیهم السلام) می باشد؛ از جمله امام زمان (علیه السلام) که در زیارت صاحب الامر می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ... وَالْوَلِی النّاصِحِ سَفِینَهِ النَّجاهِ»؛(۲۵۴)
«خدایا درود فرست بر محمّد حجت خودت (امام زمان (علیه السلام))... آن که ولی و ناصح خیرخواه است و کشتی نجات می باشد».
و در هر روز جمعه نیز این گونه به حضرت سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا سَفِینَهَ النَّجاهِ»؛(۲۵۵)
«سلام بر تو ای کشتی نجات!»
۱۶۸ - سُلالهُ النُّبوَه:
به معنای فرزند و نواده پاک پیامبر و نبوّت است، در استغاثه به امام زمان (علیه السلام) در روز جمعه و غیر آن می خوانیم:
«سَلامُ الله الْکامِلُ التّآمُّ الشّامِلُ الْعآمُّ، وَصَلَواتُهُ الدّآئِمَهُ، وَبَرَکاتُهُ الْقآئِمَهُ التّآمَّهُ، عَلی حُجَّهِ الله وَوَلِیهِ فِی أَرْضِهِ وَبِلادِهِ، وَخَلِیفَتِهِ عَلی خَلْقِهِ وَعِبادِهِ، وَسُلالَهِ النُّبُوَّهِ»؛(۲۵۶)
«سلام کامل و تام و تمام خدای متعال و سلام عام و شامل و رحمت پیوسته و برکات پاینده و کامل او بر حجت خدا و ولی خدا در زمین و شهرهای آن و خلیفه خدا بر خلق و بندگان خدا و بر فرزند پاک نبوّت... ».
۱۶۹ - سلطان مأمول:
به معنای «فرمانروای آرزو شده» است، این نام را نجم الثاقب از کتاب غیبت فضل بن شاذان نقل کرده است که از اسامی امام زمان (علیه السلام) سلطان مأمول است.(۲۵۷)
۱۷۰ - سناء:
هم به معنای بزرگ و بلند مرتبه است و هم روشنایی و فروغ می باشد و از کتاب هدایه الکبری نقل شده که آن از اسامی امام زمان (علیه السلام) است.(۲۵۸)
۱۷۱ - سید:
به معنای بزرگ و سرور می باشد و در اخبار زیادی این نام به امام زمان (علیه السلام) اشاره شده است؛ از جمله آنجا که امام حسن عسکری (علیه السلام) فرمود:
«یا سَیدَ أَهْلِ بَیتِهِ اسْقِنِی الْمآءَ فَاِنِّی ذاهِبٌ إِلی رَبِّی»؛(۲۵۹)
«ای بزرگ و سرور خاندان خود! کمی آب به من بده که من به سوی پروردگارم سفر خواهم کرد».
صاحب عبقری الحسان چند نکته دارد که چرا به این اسم نامیده شده:
۱) چون هنگام ظهورش او واقعاً بزرگ عالم است و مطاع برای همه.
۲) چون انواع خیرات و خوبی ها از او برای مردم سرازیر می شود.
۳) چون حلیم و بردبار و تحمل کننده اذیت هاست.
و این ها از معانی سید است.(۲۶۰)
۱۷۲ - سید الاُمَّه(۲۶۱):
او بزرگ و سید و سرور امّت اسلامی بلکه تمام امّت هاست؛ لذا در دعای مربوطه درخواست می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلَی مَوْلانا وَ سَیدِنا الامامِ الْقائِمِ بِاَمْرِ اللهِ صاحِبِ الزَّمانِ وَ رَحْمَهُ الله وَ بَرَکاتُهُ»؛(۲۶۲)
«سلام بر مولای ما و آقای ما، آن امامی که به امر خدا قیام می کند، امامی که صاحب عصر و زمان است، و رحمت و برکات خدا بر او باد».
۱۷۳ - سید الخلق:
سید و سرور و بزرگ تمام آفریدگان خداست، که از امام رضا (علیه السلام) این عنوان وارد شده است.(۲۶۳)
۱۷۴ - سیدنا:
یعنی امام زمان (علیه السلام) آقا و سرور همه ماست که در دعای توسل عرض می کنیم:
«یا سَیدَنا وَمَوْلانا، إِنّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِکَ إِلَی اللهِ»؛(۲۶۴)
«ای آقا و سرور ما و مولای همه خلایق، ما توسط تو به سوی خدا توجّه می کنیم و طلب خیر و توسل می جوییم».
۱۷۵ - سید هُمام:
یعنی آقای بزرگ و دلیر و بخشنده که از اوصاف و القاب امام زمان (علیه السلام) است. چنان که سید بن طاووس در زیارت سرداب مقدّس آورده:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... وَالسَیدِ الهُمامِ».(۲۶۵)
سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان،... و بر آن سید بزرگ باد».
۱۷۶ - سیفُ الشّاهِر:
به معنای شمشیر آماده و از غلاف درآمده می باشد. این از اوصاف قائم آل محمّد(علیهم السلام) است؛ یعنی همیشه آماده است تا فرمان الهی فرا رسد و از پس پرده غیبت به در آید:
«اَلسَّلامُ عَلَی السَّیفِ الشّاهِرِ»؛(۲۶۶)
«سلام بر آن شمشیر آماده و از نیام کشیده شده برای هلاکت کافران و ظالمان».
۱۷۷ - سیفُ الله:
امام زمان (علیه السلام) شمشیر خداست که خدا به وسیله او کافران، ظالمان و دشمنان را سر جای خود می نشاند:
«وَاللهُ ناصِرُهُ وَمُؤَیدُهُ إِذا آنَ مِیعادُهُ وَالمَلائِکَهُ اَمْدَادُهُ سَیفُ الله الَّذِی لا ینْبَوُ وَنُورُهُ الَّذِی لایخْبُو»؛(۲۶۷)
«آن گاه که روز میعاد او فرا برسد، خداوند او را یاری و تأیید می کند و فرشتگان نیز به امداد او می آیند، او شمشیر خداست که کند نمی شود و نور خداست که خاموش نمی شود».
۱۷۸ - شافع:
به معنای شفاعت کننده گناهکاران نزد خداوند متعال؛ همچنان که پیامبر و سایر امامان (علیهم السلام) نیز شافع هستند.
«وَأَنْتَ الشّافِعُ الَّذِی لا تُنازَعُ»؛(۲۶۸)
«تویی آن شفاعت کننده نزد خداوند که هیچ کسی با تو نزاع نکند».
۱۷۹ - شاهد:
به معنای گواه و نظاره گر و دیدبان خدا بر مردم است و از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد، این هم قسمتی از دعای روز جمعه:
«اَللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلی وَلِیکَ... وَشاهِدِکَ عَلی عِبادِکَ»؛(۲۶۹)
«خدایا درود فرست بر ولی خودت... که شاهد و گواه توست بر بندگان تو».
و در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«وَأَتَوَسَّلُ إِلَیکَ یا رَبِّ بِإِمامِنا... وَالشّاهِدِ الْمَشْهُودِ»؛(۲۷۰)
«خدایا توسل می جویم به تو ای پروردگارم به امام ما... او شاهد و گواه خلق و مشهود اهل عالم است».
۱۸۰ - شَرید:
از اسامی آن بزرگوار «شرید» است که در احادیث امامان (علیهم السلام) مکرر به این لقب اشاره شده است و به معنای «رانده شده» می باشد.(۲۷۱)
امام رضا (علیه السلام) از پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) روایت می کند که فرمودند:
«بِاَبِی ابْنُ خِیرَهِ الاماءِ... وَهُوَ الطَّرِیدُ الشَّرِیدُ الْمَوْتُورُ بِاَبِیهِ وَجَدِّهِ صاحِبِ الغیبَهِ یقالُ ماتَ اَوْ هَلَکَ بِاَی وادٍ سَلَکَ...»؛(۲۷۲)
«فدای آن فرزند بهترین کنیزان... آن تنهای یگانه و رانده شده که انتقام خون پدر و جدّش را نگرفته است، آن که صاحب غیبت طولانی است و در موردش گفته می شود: مرده، یا کشته شده، معلوم نیست در کجاست؟...».
و امیرالمؤمنین (علیه السلام) فرمودند:
«... ذاکَ الفَقِیدُ الطَّرِیدُ الشَّریدُ م حم د بْنُ الحَسَنِ بْنِ عَلی بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی بْنِ مُوسَی بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی بْنِ الْحُسین هذا وَوَضَعَ یدَهُ عَلی رَأْسِ الْحُسَینِ (علیه السلام)»؛(۲۷۳)
«او امام از دست رفته و تنها و رانده شده است، م حم د بن حسن بن علی بن محمّد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمّد بن علی بن الحسین، یعنی این حسین. و دست مبارک را بر سر امام حسین (علیه السلام) قرار داد».
۱۸۱ - شریک القرآن:
پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) بارها فرمود که قرآن و عترت همسان و شریک و همرتبه یکدیگرند، پس از آن ها جدا نشوید. و اینک امام زمان (علیه السلام) باقی مانده آن عترت است و شریک قرآن می باشد.
«السَّلامُ عَلَیکَ یا شَرِیکَ القُرآنِ»؛(۲۷۴)
«سلام بر تو ای آقایی که شریک قرآن هستی».
۱۸۲ - شَکور:
یعنی کسی که بسیار شکر و سپاس خداوند را می کند و چه کسی از امام زمان (علیه السلام) شاکرتر و سپاسگزارتر!
و ما نیز شهادت می دهیم که:
«فَإِنَّهُ الْهادِی الْمَهْدِی وَالْقآئِمُ الْمُهْتَدِی، وَالطّاهِرُ التَّقِی الزَّکِی النَّقِی الرَّضِی الْمَرْضِی، الصّابِرُ الشَّکُورُ الْمُجْتَهِدُ»؛(۲۷۵)
«که او هادی و مهدی است، آن قائم مهتدی، و آن که پاک و پاکیزه و خالص و مورد رضایت و پسندیده حقّ، آن صابر شکرگزار و کوشا».
۱۸۳ - شماطیل:
کتاب ذخیره و تذکره الائمه گفته اند، در کتاب ارماطش، به منجی عالم بشریت و موعود آخرالزمان «شماطیل» گفته شده است.(۲۷۶)
۱۸۴ - شَمس الشُّموس:
او خورشید همه خورشیدهاست.
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا شَمْسَ الشُّمُوسِ»(۲۷۷)
«سلام بر تو ای خورشید خورشیدها».
۱۸۵ - شَمس الطّالِعه:
خورشیدفروزان؛ مانند سایرامامان که هرکدام خورشیدی بعد از خورشیدی هستند، از دیگر القاب امام زمان (علیه السلام) است؛ لذا در دعای ندبه می گوییم:
«أَینَ الشُّمُوسُ الطّالِعَهُ؟»؛(۲۷۸)
«کجایند خورشیدهای فروزان».
۱۸۶ - شَمس الظَّلام:
به معنای خوشید تاریکی هاست، او که ظلمت و تاریکی جهان را به نور خدایی خود روشن خواهد کرد، لذا در زیارتش می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَی الشَّمْسِ الظّلامِ»؛(۲۷۹)
«درود و سلام بر آفتاب شام ظلمانی جهان».
۱۸۷ - شهاب الثاقب:
ناگهانی بودن و نیز سرعت ظهور امام زمان (علیه السلام) به گونه ای است که آن را به شهاب توصیف نموده اند؛ چنان که در احادیث متعددی، از جمله پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) فرموده اند:
«اَلمَهْدِی مِنْ وُلْدِی....یکُونُ لَهُ غَیبَهٌ وَ حَیرَهٌ یضَلُّ فِیهَا الاُمَمُ، ثُمَّ یقْبِلُ کَالشَّهابِ الثّاقِبِ...»(۲۸۰)
«مهدی از فرزندان من است... او که دارای غیبتی است که بسیاری در سرگردانی آن گمراه می شوند، آن گاه چون شهاب و ناگهانی ظاهر خواهد شد...».
۱۸۸ - صابر:
به معنای صبر کننده و شکیبا، از القاب امام زمان (علیه السلام) است.
شیخ صدوق در ادامه دعای «اللّهمّ عرّفنی نفسک...» که در زمان غیبت امام زمان (علیه السلام) خوانده می شود، در کتاب کمال الدین می آورد:
«فَإِنَّهُ الْهادِی الْمَهْدِی وَالْقآئِمُ الْمُهْتَدِی، وَالطّاهِرُ التَّقِی الزَّکِی النَّقِی الرَّضِی الْمَرْضِی، الصّابِرُ الشَّکور الْمُجْتَهِدُ»؛(۲۸۱)
«... که او هادی مهدی است، آن قائم مهتدی، و آن که پاک و پاکیزه و خالص و مورد رضایت و پسندیده حقّ و آن صابر شکرگزار و کوشا».
۱۸۹ - صاحب:
از کتاب ذخیره و تذکره الائمه نقل شده است که از القاب معروف و مطلق امام زمان (علیه السلام)، صاحب می باشد، هم چنین است نام آن حضرت در کتاب صحف ابراهیم (علیه السلام).(۲۸۲)
۱۹۰ - صاحب الاَمر:
این عنوان نیز از القاب شایع و مشهور امام زمان (علیه السلام) است و در کتاب های متعددی نیز به آن اشاره شده است.(۲۸۳)
در زیارت امیرالمؤمنین (علیه السلام) می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ إِنِّی أَتَقَرَّبُ إِلَیکَ... وَبِالْخَلَفِ الْحُجَّهِ صاحِبِ الْأَمْرِ مُظْهِرِ الْبَراهِینِ...»؛(۲۸۴)
«خدایا به تو تقرب می جویم... به واسطه جانشین تو صاحب الامر که آشکار کننده براهین است...».
از امام صادق (علیه السلام) نقل شده که فرمود:
«تَخْضَعُ رِقابَهُمْ یعْنِی بَنِی اُمَیه وَهِی الصَّیحَهُ مِنَ السَّماءِ بِاسْمِ صاحِبِ الأَمْر (علیه السلام)»؛(۲۸۵)
«همه گردن ها برای او خاضع می شود و آن صیحه آسمانی به نام صاحب الامر صدا خواهد زد».
۱۹۱ - صاحب الدّار:
برخی علمای رجال تصریح کرده اند که «صاحب الدار» از القاب خاصه امام زمان (علیه السلام) است و صاحب کتاب بحار الانوار مرحوم علامه مجلسی نیز حکایتی از تشرف به محضر آن حضرت نقل کرده که فرمودند:
«اَنَا صاحِبُ الدّارِ»؛(۲۸۶)
«من صاحب الدار هستم».
و در توقیعی از نایب خاص امام زمان (علیه السلام) آمده است:
«فَوَقَّعَ التَّوْقِیعُ بِخَطِّ مَوْلانا صاحِبِ الأَمْرِ...».(۲۸۷)
«توقیع شریف به خط مولای ما صاحب الامر (علیه السلام) صادر شد...»
۱۹۲ - صاحب الدَّولهُ الزَّهراء:
این عنوان در کتاب هدایه الکبری از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است.(۲۸۸) یعنی امام زمان (علیه السلام) خواهد آمد و حکومت واقعی علوی و فاطمی را در سراسر جهان حاکم خواهد کرد. در کتاب دلائل الامامه نیز چنین است.(۲۸۹)
۱۹۳ - صاحب الدُّهور:
به معنای صاحب دهر و دهرها، صاحب روزگار و روزگاران است و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است.
سید بن طاووس در زیارت سرداب مقدّس نقل کرده است:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... صاحِبِ الدُّهُورِ وَالْعُصُورُ».(۲۹۰)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان،... و آن که صاحب عصر و روزگاران است باد».
۱۹۴ - صاحب الدِّین:
امام زمان (علیه السلام) به اذن خداوند متعال اختیاردار و صاحب دین و دنیاست. پس این نیز از القاب آن جناب است.
و در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَی صاحِبِ الدِّینِ الْمَأْثُورِ وَالْکِتابِ الْمَسْطُورِ».(۲۹۱)
«سلام بر آن حافظ دین که از پیامبر رحمت رسیده است و سلام بر آن کتاب رقم شده به قلم حکمت الهی».
۱۹۵ - صاحب الرّایات:
به معنای صاحب و دارنده پرچم ها و علامات است و از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد؛ چنان که امام باقر (علیه السلام) در روایتی فرموده است: و هو صاحب الرایات....(۲۹۲)
۱۹۶ - صاحب الرّجعه:
از هدایه الکبری نقل شده است که «صاحب الرجعه» از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۲۹۳) چون رجعت که از معتقدات شیعه است بعد از ظهور امام زمان (علیه السلام) واقع خواهد شد و در آن زمان، صالح ترین افراد و ظالم ترین افراد که مرده اند، رجعت می کنند.
در کتاب دلائل الامامه می گوید از القاب امام زمان (علیه السلام) صاحب الرجعه البیضا می باشد.(۲۹۴)
۱۹۷ - صاحب الزّمان:
«صاحب الزمان» از مشهورترین القاب امام زمان (علیه السلام) است که به معنای مالک، اختیاردار و فرمانروای زمین و زمان است از جانب خداوند متعال.
امام رضا (علیه السلام) فرمود:
«اَلخَلَفُ الصّالِحُ مِنْ وُلْدِ أَبِی مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِی وَهُوَ صاحِبُ الزَّمانِ وَهُوَ المَهْدِی»؛(۲۹۵)
«آن جانشین شایسته فرزند امام حسن عسکری (علیه السلام) است، همان که صاحب الزمان و مهدی است».
در زیارت مخصوص امام زمان (علیه السلام) در روز جمعه این گونه به آن جناب خطاب می کنیم:
«یا مَوْلای یا صاحِبَ الزَّمانِ صَلَواتُ الله عَلَیکَ وَعَلی آلِ بَیتِکَ»؛(۲۹۶)
«ای آقا و مولای من، ای صاحب عصر و زمان، درود خدا بر تو و بر آل بیت تو باد».
و در دعای توسل دوم نیز می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ إِنِّی أَسْئَلُکَ بِحَقِّ وَلِیکَ وَحُجَّتِکَ صاحِبِ الزَّمانِ (علیه السلام)»؛
«خدایا از تو درخواست می کنم، به حقّ ولی و حجّت خودت صاحب الزمان که سلام بر او باد...».
و یا در استغاثه به آن حضرت:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا مَوْلای یا صاحِبَ الزَّمانِ».
و از همه مهم تر این نامی است که پدر بزرگوارش امام حسن عسکری (علیه السلام) به ایشان فرمود:
«اَبْشِرْ یا بُنَی فَاَنْتَ صاحِبُ الزَّمانِ وَاَنْتَ الْمَهْدِی»؛(۲۹۷)
«بشارت باد بر تو ای فررندم که تو صاحب الزمان و مهدی هستی».
۱۹۸ - صاحب السَّیف:
به معنای دارنده شمشیر، از القاب قطب عالم امکان امام زمان (علیه السلام) است.
امام صادق (علیه السلام) فرمودند:
«کُلّنا قائِمٌ بِأَمْرِ الله واحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ حَتّی یجِیء صاحِبُ السَّیفِ فَإِذا جآءَ صاحِبُ السَّیفِ جآءَ بِأَمْرٍ غَیرَ الَّذِی کانَ»؛(۲۹۸)
«همه ما قائم به امر خداوند هستیم، یکی پس از دیگری، تا زمانی که صاحب شمشیر بیاید، هرگاه صاحب شمشیر آمد امر و دستوری غیر از آنچه بوده می آورد».
۱۹۹ - صاحب الشَّرَف:
دارای آبرو و مجد و شرافت؛ آن هم شرافت و عظمت الهی، از القاب امام زمان (علیه السلام) است؛ چنان که در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلی خَلَفِ السَّلَفِ وَصاحِبِ الشَّرَفِ»؛(۲۹۹)
«سلام بر جانشین اولیای گذشته که صاحب مجد و شرافت است».
و علامه مجلسی نقل کرده:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا صاحِبَ الشَّرَفِ»؛(۳۰۰)
«سلام بر تو ای صاحب شرف».
۲۰۰ - صاحب الصَّمْصام:
به معنای دارنده شمشیر تیز و برنده است؛ یعنی به قدرت خداوند متعال سلاح او به گونه ای است که هیچ قدرتی تاب مقاومت در برابر آن را ندارد و خدا اراده کرده که با ظهور امام زمان (علیه السلام) ظالمان را سر جایشان بنشاند.
لذا در زیارت آن حضرت عرض می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلی صاحِبِ الصَّمْصامِ وَفَلّاقِ الْهامِ»؛(۳۰۱)
«سلام بر صاحب شمشیر قدرت و شکافنده فرق اهل ظلم و جهالت».
۲۰۱ - صاحب الضِّیاء:
به معنای دارنده نور الهی، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است که در زیارت آن حضرت می گوییم:
«سَلامُ الله وَبَرکاتُه وَتَحیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ صاحِبِ الضَّیآءِ»؛(۳۰۲)
«سلام و برکات و تحیات خدا و درودهای او بر مولای ما صاحب الزمان آن که صاحب نور خدایی است».
۲۰۲ - صاحب العصر:
این لقب نیز از القاب مشهور امام زمان (علیه السلام) است و در کنار صاحب الزمان بسیار استعمال می شود، به معنای صاحب و اختیاردار عصر و زمان.(۳۰۳)
«اَللّهمّ وَصَلِّ عَلی.. وَالحُجّهِ بْنِ الحَسَنِ صاحِبِ العَصْرِ وَالزَّمانِ وَصِی الاَوْصِیاءِ»؛(۳۰۴)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت، فرزند امام عسکری (علیه السلام) که صاحب عصر و زمان است و آخرین جانشین جانشینان است».
۲۰۳ - صاحب العُصُور:
او نه تنها صاحب العصر، بلکه صاحب العصور و صاحب تمام روزگاران است.
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... صاحِبِ الدُّهُورِ وَالعُصُورِ».(۳۰۵)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان،... آن امامی که صاحب عصرها و روزگاران است باد».
۲۰۴ - صاحب الغیبه:
به معنای آن کسی که غیبت خواهد داشت و در پنهانی زندگی خواهد کرد، از القاب معروف امام زمان (علیه السلام) است.
ریان بن صلت روایت می کند که امام رضا (علیه السلام) فرمود:
قائم مهدی پسر فرزند من، حسن است که جسمش دیده نمی شود....(۳۰۶)
امام رضا (علیه السلام) از پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) نقل می کند که فرمودند:
«بِاَبِی ابْنُ خِیرَهِ الإماءِ... وَهُوَ الطَّرِیدُ الشَّرِیدُ المَوتُور بِابِیه وَجَدِّهِ صاحِبُ الْغَیبَهِ یقالُ ماتَ اَو هَلَکَ بِاَیّ وادٍ سَلَکَ...».(۳۰۷)
«فدای آن فرزند بهترین کنیزان... آن تنهای یگانه و رانده شده که انتقام خون پدر و جدّش را نگرفته است، آن که صاحب غیبت طولانی است و در موردش گفته می شود: مرده، یا کشته شده، معلوم نیست در کجاست؟
۲۰۵ - صاحب الکتاب المَنْشُور:
به معنای دارنده کتاب منشور و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است.
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... صاحِبِ الضّیاءِ والنّورِ وَالدّینِ المَأثُورِ واللِّواءِ الْمَشْهُورِ وَالْکِتابِ الْمَنْشُورِ».(۳۰۸)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان، آن که صاحب روشنایی و نور است و حافظ دین پیامبر و دارنده پرچم مشهور و کتاب منشور است».
۲۰۶ - صاحب الکَرَّه الْبَیضاء:
از هدایه الکبری نقل شده که از القاب امام زمان (علیه السلام) صاحب الکره البیضاء است و در مشارق الانوار از حکیمه خاتون روایتی نقل شده که می گوید:
آن جناب را نزد برادرم حسن بن علی آوردم، حضرت با دست شریف بر روی نور او که نور انوار بود، مسح نمود و فرمود:
سخن بگو ای حجه الله وبقیه الله ونور اصفیا وغوث فقرا و خاتم اوصیا ونور اتقیا وصاحب کره بیضا.(۳۰۹)
۲۰۷ - صاحب اللِّواء:
از القاب امام زمان (علیه السلام) این است که آن حضرت صاحب اللّوا می باشد، آن هم لوای مشهور، عَلَم و پرچمی که برای همه شناخته شده است. چنان که در زیارت سرداب مقدّس آمده:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... صاحِبِ الضِّیاءِ وَالنُّورِ وَالدّینِ المَأْثُورِ وَاللِّواءِ الْمَشْهُورِ».(۳۱۰)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان، آن که صاحب روشنایی و نور است و حافظ دین پیامبر و دارنده پرچم مشهور و کتاب منشور است».
۲۰۸ - صاحب النّاحیه:
از القاب امام زمان (علیه السلام)، صاحب الناحیه است.
ناحیه به هر مکانی اطلاق می شده که صاحب الزمان (علیه السلام) در مدت غیبت صغری در آن محل بوده است.(۳۱۱)
در اخبار زیادی این لقب به امام زمان (علیه السلام) اطلاق شده است؛ اگرچه در برخی موارد به امام علی النقی و امام عسکری (علیهما السلام) نیز گفته شده است.
در باب توقیعات امام زمان (علیه السلام) این عبارت فراوان تکرار شده است:
«خَرَجَ تَوقِیعٌ مِنَ النّاحِیهِ المُقَدَّسهِ حَرَسَهَا الله تَعالی..»؛(۳۱۲)
«توقیع شریف و نامه مبارک امام زمان (علیه السلام) از ناحیه مقدسه که خداوند آن را حفظ و حراست نماید صادر شد...».
۲۰۹ - صاحب النّور:
از دیگر القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) صاحب النور است؛ چون او دارنده نور الهی است.
چنان که در زیارت سرداب مقدّس آمده:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... صاحِبِ الضِّیاءِ وَالنُّورِ».(۳۱۳)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان،... امامی که دارنده نور الهی است».
۲۱۰ - صاحب یوم الفتح:
روز فتح و پیروزی تمام مستضعفان و مظلومان عالم که در طول تاریخ به آنان ظلم شده است، آن روزی است که منجی عالم بشریت ظهور کند و ظالمان را به هلاکت برساند، پس امام زمان (علیه السلام) صاحب چنین روزی است، لذا در دعای ندبه چنین ناله می کنیم:
«أَینَ صاحِبُ یوْمِ الْفَتْحِ وَناشِرُ رایهِ الْهُدی؛(۳۱۴)
«کجاست صاحب روز پیروزی اهل ایمان و اسلام بر اهل ظلم و کفر و آن که برافرازنده پرچم هدایت در جهانیان است».
۲۱۱ - صادق:
حضرت سلمان در مورد آیه شریفه «یأَیها الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوامَعَ الصّادِقِینَ»(۳۱۵) از رسول خدا(صلی الله علیه وآله) سؤال کرد، فرمودند:
«وَ اَمَّا الصّادِقُونَ فَخاصَّهٌ لاَخِی عَلِی وَ الاَوْصِیاء مِنْ بَعْدِهِ اِلی یوْمِ الْقِیامَهِ...»(۳۱۶)
«مراد از صادقون (که همه به پیروی از ایشان امر شده اند) علی (علیه السلام) و جانشینان بعد از او می باشند تا روز قیامت...»
و امام زمان (علیه السلام) نیز یکی از آنان است؛ لذا صادق از القاب ایشان می باشد.
۲۱۲ - صالح:
به معنای نیکوکار و شایسته، که مقدّس اردبیلی در حدیقه الشیعه آن را از القاب امام زمان (علیه السلام) بیان کرده است.(۳۱۷)
و امام رضا (علیه السلام) فرمود:
«اَلْخَلَفُ الصّالِحُ مِنْ وُلْدِ أَبِی مُحَمَّدٍ الحَسَنِ بْنِ عَلِیّ وَهُوَ صاحِبُ الزَّمانِ وَهُوَ المَهْدِی»؛(۳۱۸)
«خلف صالح فرزند امام عسکری است و او همان صاحب الزمان است و او همان مهدی است».
همچنین در تفسیر آیه «وَلَقَدْ کَتَبْنا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یرِثُها عِبادِی الصّالِحُونَ»(۳۱۹) از امام صادق (علیه السلام) نقل شده که فرمودند:
مراد از آن امام قائم (علیه السلام) و اصحاب ایشان هستند.
۲۱۳ - صبح مُسْفِر:
به معنای صبح روشنایی بخش است که هدایه الکبری آن را از القاب خاصه امام زمان (علیه السلام) شمرده و احتمال دارد از آیه شریفه «وَالصُّبْحِ إِذَآ أَسْفَرَ»(۳۲۰) اقتباس شده باشد، به این مناسبت که آن حضرت نیز چون صبح صادق، روشن و هویداست.(۳۲۱)
۲۱۴ - صدْر الخلائق:
به معنای بهترین و برترین خلق خداست و امام زمان (علیه السلام) نیز چنین جایگاهی دارد.
لذا در دعای ندبه به دنبال آن عزیز سفر کرده می گردیم که:
«أَینَ صَدْرُ الْخَلآئِقِ ذُو الْبِرِّ وَالتَّقْوی؛(۳۲۲)
«کجاست صدرنشین عالم که دارای حدّاعلای تقوا ونیکوکاری است»
۲۱۵ - صدق:
صدق به معنای راستی و درستی است که کتب هدایه الکبری و دلائل الامامه آن را از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده اند.(۳۲۳)
۲۱۶ - صراط:
راه راست و مستقیم الهی از طریق حجت و امام می گذرد که بر هر امامی قابل اطلاق است؛ یعنی از طریق امام و شناخت او باید به خدا رسید. به همین جهت هدایه الکبری آن را از القاب امام زمان (علیه السلام) دانسته است.(۳۲۴)
۲۱۷ - صَمْصام اکبر:
به معنای بزرگ ترین شمشیر تیز و برّان است که دومی ندارد. کتاب تذکره الائمه و ذخیره این عنوان را از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده اند.
و در کتاب کندرال نیز چنین ذکر شده است.(۳۲۵)
۲۱۸ - صَمْصام منتقم:
یعنی شمشیر انتقام گیرنده و این لقبی است که امام زمان (علیه السلام) خود را با آن معرفی می کند.
آن گاه که آن امام غایب از نظر ظهور نماید و تکیه به خانه کعبه دهد و تمام عالمیان را ندا دهد که:
«أَلا یا اَهْلَ الْعالَمِ اَنَا الصَّمْصامُ الْمُنْتَقِمُ»؛
«آگاه باشید ای اهل دنیا و ای جهانیان! من شمشیر انتقام گیرنده ام».
۲۱۹ - ضُحی:
به معنای وسط روز، آن موقعی که روشنایی و تابش خورشید به حدّ اعلای خود می رسد و ضحی از القاب امام زمان (علیه السلام) گفته شده است.
در تأویل آیه شریفه «وَالشَّمْسِ وَضُحیها»(۳۲۶) روایت شده است که شمس، رسول خداست و ضحای آن قائم است، آن گاه که ظهور کند.(۳۲۷)
۲۲۰ - ضرغامه:
به معنای پهلوان و دلاور است که امام زمان (علیه السلام) را به آن نامیده اند.(۳۲۸)
۲۲۱ - ضیاء:
به معنای نور و روشنایی است که در هدایه الکبری آن را از القاب امام زمان (علیه السلام) دانسته است.(۳۲۹)
۲۲۲ - ضیاءُ الاَنوَر:
به معنای روشن ترین نور الهی است و از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد که در زیارت ائمه سرّ من رأی می خوانیم:
«وَأَتَوَسَّلُ إِلَیکَ یا رَبِّ بِإِمامِنا وَمُحَقِّقِ زَمانِنا، اَلْیوْمِ الْمَوْعُودِ وَالشّاهِدِ الْمَشْهُودِ وَالنُّورِ الْأَزْهَرِ وَالضِّیآءِ الْأَنْوَرِ»؛(۳۳۰)
«و تقرب و توسل می جویم به سوی تو ای پروردگارم به وسیله امام و پیشوای ما که نگهبان حقّ است در زمان ما تا روز موعود که ظهورش فرا رسد، او که شاهد خلق و مشهود اهل عالم و روشن ترین انوار الهی است...».
۲۲۳ - طالب:
به معنای طلب کننده و جوینده است که در اینجا منظور جوینده خون مظلومان؛ به خصوص خون مظلوم کربلا جد بزرگوارش امام حسین (علیه السلام) است.
او خواهد آمد و انتقام خون همه اولیا و انبیا(علیهم السلام) را خواهد گرفت.
و این است ناله عاشقان آن حضرت از زبان معصوم:
«أَینَ الطّالِبُ بِذُحُولِ الْأَنْبِیآءِ وَأَبْنآءِ الْأَنْبِیآءِ»؛(۳۳۱)
«کجاست آن امام منتقمی که از ظلم و ستم بر پیامبران و فرزندان آنان دادخواهی می کند؟»
«أَینَ الطّالِبُ بِدَمِ الْمَقْتُولِ بِکَرْبَلآءَ»؛(۳۳۲)
«کجاست آن که برای جد بزرگوارش امام حسین (علیه السلام)، کشته شده کربلا انتقام خواهد کشید؟»
۲۲۴ - طالب التُّراث:
در هدایه الکبری این عنوان را از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده است و طالب التراث به معنای میراث خواه است.(۳۳۳)
۲۲۵ - طامس:
به معنای نابود کننده و محو کننده هرگونه بدی است.
و این هم فرازی از دعای ندبه که هر صبح جمعه می خوانیم:
«أَینَ طامِسُ آثارِ الزَّیغِ وَالْأَهْوآءِ»؛(۳۳۴)
«کجاست آن که آثار اندیشه های باطل و هواهای نفسانی را محو و نابود می سازد؟»
۲۲۶ - طاووس اهل الجنه:
به معنای طاووس بهشتیان، از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) می باشد و این بنابر حدیثی است که از پیامبر اعظم (صلی الله علیه وآله) نقل شده است که فرموده اند:
«اَلْمَهْدِی طاوُسُ أَهْلِ الْجَنَّهِ»؛(۳۳۵)
«مهدی طاووس اهل بهشت است».
۲۲۷ - طاهر:
طاهر به معنای پاک و پاکیزه و از هر عیب و نقصی مبرّا می باشد، چون او معصوم است همان طور که خداوند متعال فرموده:
«إِنَّما یرِیدُ الله لِیذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَیطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً»؛(۳۳۶)
«خداوند فقط می خواهد پلیدی و گناه را از شما اهل بیت دور کند و کاملاً شما را پاک سازد».
لذا در دعای زمان غیبت آن حضرت «اَللَّهُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ» می گوییم:
«... فَإِنَّهُ الْهادِی الْمَهْدِی وَالْقآئِمُ الْمُهْتَدِی، وَالطّاهِرُ التَّقِی الزَّکِی النَّقِی الرَّضِی الْمَرْضِی...»؛(۳۳۷)
«خدایا ما شهادت می دهیم که او امام هدایت است خلق را، او طاهر و پاک و باتقواست، او به صفات پسندیده و کمال آراسته است».
۲۲۸ - طَرید:
از القاب امام زمان (علیه السلام) و به معنای رانده شده می باشد و نزدیک به معنای «شرید» است که در اخبار مکرر بیان شده؛(۳۳۸) از جمله در حدیث امام رضا (علیه السلام) از پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) که فرمود:
«بِاَبِی ابْنُ خِیرَهِ الاماءِ... وَهُوَ الطَّرِیدُ الشَّرِیدُ الْمَوْتُورُ بِاَبِیهِ وَجَدّهِ صاحِب الْغَیبَهِ یقالُ ماتَ اَو هَلَکَ بِاَی وادٍ سَلَکَ...»؛(۳۳۹)
«فدای آن فرزند بهترین کنیزان... آن تنهای یگانه و رانده شده که انتقام خون پدر و جدّش را نگرفته است، آن که صاحب غیبت طولانی است و در موردش گفته می شود: مرده، یا کشته شده، معلوم نیست در کجاست؟...».
۲۲۹ - طَلْعَه الرَّشیده:
از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است که در دعای عهد، رؤیت آن جمال نورانی را از خدا طلب می کنیم:
«اَللَّهُمَّ أَرِنِی الطَّلْعَهَ الرَّشِیدَهَ، وَالْغُرَّهَ الْحَمِیدَهَ»؛(۳۴۰)
«خدایا آن طلعت زیبای رشید و آن پیشوای ستوده را به من بنمایان».
۲۳۰ - طَیب:
به معنای پاک و پاکیزه است و امام زمان (علیه السلام) چنین است، مانند سایر امامان معصوم (علیهم السلام) و فعلاً در روی زمین تنها او می تواند چنین لقبی داشته باشد که امام معصوم فقط اوست.
ظاهر و باطن او، جسم و جان او، و روح و بوی او طیب و طاهر است؛ چنان که کسانی که آن حضرت را مشاهده کرده اند، توصیف نموده اند.(۳۴۱)
۲۳۱ - ظاهر الحجّه:
به معنای حجت آشکار است و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) می باشد که در زیارت نامه پدر بزرگوارش امام حسن عسکری (علیه السلام) می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا أَبَا الْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ، الظّاهِرَهِ لِلْعاقِلِ حُجَّتُهُ»؛(۳۴۲)
«سلام بر تو ای پدر بزرگوار امام منتظری که حجت و جود او و امامتش بر خردمندان عالم آشکار است».
۲۳۲ - ظفر(۳۴۳):
به معنای فتح و پیروزی است؛ چرا که فتح و پیروزی حقّ بر باطل، و عدالت بر ظلم و ستم با نام امام زمان (علیه السلام) عجین گشته است.
۲۳۳ - ظَهْر(۳۴۴):
به معنای پشتوانه و کمک و پشتیبانی است و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده است.
۲۳۴ - عابد:
به معنای عبادت کننده و پرستشگر خدا که به طور مطلق از القاب امام زمان (علیه السلام) است و در دعای آن حضرت می خوانیم:(۳۴۵)
«اَللَّهُمَّ ادْفَعْ عَنْ وَلِیکَ... الْعابِدِ عِنْدَکَ، وَأَعِذْهُ مِنْ شَرِّ جَمِیعِ ما خَلَقْتَ وَبَرَأْتَ...»؛(۳۴۶)
«خدایا هر نوع بلایی را از ولی خودت، آن عابد نزد تو دفع فرما و او را از شرّ هر مخلوقی پناه ده».
۲۳۵ - عائِذ:
به معنای پناهنده و در پناه، کسی که خود را به خدا سپرده و در پناه اوست،(۳۴۷) و از القاب امام زمان (علیه السلام) گفته شده است؛ لذا در دعای به آن حضرت می گوییم:
«اَللَّهُمَّ ادْفَعْ عَنْ وَلِیکَ... الْجَحْجاحِ الْمُجاهِدِ، الْعآئِذِ بِکَ...»؛(۳۴۸)
«خدایا از ولی خودت... آن مجاهد بزرگ و آن که خود را در پناه تو گرفته، هر نوع بلایی را دفع فرما...».
۲۳۶ - عاقبهُ الدّار:
آن طور که هدایه الکبری گفته عنوان «عاقبه الدار» از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۳۴۹)
در کتاب دلائل الامامه نیز از القاب آن حضرت شمرده است.(۳۵۰)
۲۳۷ - عالِم:
در زمان ائمه (علیهم السلام) آن گاه که دوران خفقان و ظلم بر شیعه بود و نمی توانستند اسم امام را بنابر تقیه بر زبان بیاورند، از عنوان «العالم» استفاده می کردند؛ چراکه دانا و آگاه مطلق در بین خلایق تنها حجت خداست که علم او متصل به علم خداست و در روی زمین الآن کسی جز امام زمان (علیه السلام) نیست؛ لذا کتاب ذخیره آن را از القاب آن حضرت شمرده است.(۳۵۱)
و در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَی الْحَقِّ الْجَدِیدِ وَالْعالِمِ الَّذِی عِلْمُهُ لا یبِیدُ»؛(۳۵۲)
«سلام بر امام به حقّ که مجدّد است و دانشمندی که علم و دانش او پایان ناپذیر است».
۲۳۸ - عبد الله:
به معنای بنده خدا، این عنوان برترین لقب پیامبر خاتم (صلی الله علیه وآله) می باشد، بنابر تصریح «اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»؛ یعنی چون بنده مخلص خدا بود، رسول خدا شد و لذا جانشینان آن حضرت، همچنین آخرین وصی ایشان تنها افرادی هستند که زیبنده این لقب می باشند.
و پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) نیز فرموده اند:
اسم مهدی، احمد و عبد الله و مهدی است.(۳۵۳)
۲۳۹ - عدل:
عدل به معنای دادگری است؛ یعنی «او» که خواهد آمد و جهان پر از ظلم و فساد را با عدل و داد، گلستان می کند، پس او عدل مطلق است و عین عدل است؛ لذا در هدایه از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است.(۳۵۴)
۲۴۰ - عَدل المُشْتَهر:
بعد از آن که مردم از ظلم و ستم به ستوه آمده باشند، آن عدالت گستر جهان خواهد آمد، و این است قسمتی از زیارت ایشان:
«اَلسَّلامُ عَلَی الْقآئِمِ الْمُنْتَظَرِ وَالْعَدْلِ الْمُشْتَهَرِ»؛(۳۵۵)
«سلام بر آن قائم که همه در انتظار اویند، آن که عدالت او مشهور عالم است».
۲۴۱ - عدل المنتظَر:
همه محرومان و مظلومان به انتظار نشسته اند تا آن دادگستر جهان بیاید و عالم را پر از عدل و داد کند. همه منتظِرند و او منتظَر است؛ لذا در دعای افتتاح شب های ماه رمضان از خدا می خواهیم که:
«اَللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلی وَلِی أَمْرِکَ الْقآئِمِ الْمُؤَمَّلِ، وَالْعَدْلِ الْمُنْتَظَرِ، وَحُفَّهُ بِمَلآئِکَتِکَ الْمُقَرَّبِینَ»؛(۳۵۶)
«خدایا درود فرست بر سرپرست امر خودت، آن قیام کننده که همه در آرزوی اویند و در انتظار عدل او نشسته اند، خدایا او را با فرشتگان مقرّب خود محفوظ بدار».
۲۴۲ - عذاب اکبر:
از امام صادق (علیه السلام) در مورد آیه «وَلَنُذِیقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَی دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّهُمْ یرْجِعُونَ؛ به آنان از عذاب نزدیک (عذاب این دنیا) پیش از عذاب بزرگ تر می چشانیم، شاید بازگردند!»(۳۵۷) سؤال شد، فرمود: عذاب نزدیک تر، گرانی است و عذاب بزرگ تر خروج حضرت مهدی (علیه السلام) با شمشیر است.(۳۵۸)
۲۴۳ - عِزّ الموحّدین:
امام زمان (علیه السلام) مایه عزت و افتخار خداپرستان و یکتاپرستان است، از تمام ادیان و امت ها؛ لذا این گونه حضرت را توصیف می کند:
«أُشْهِدُ الله وَأُشْهِدُ مَلآئِکَتَهُ وَأُشْهِدُکَ یا مَوْلای... أَنْتَ نِظامُ الدِّینِ، وَیعْسُوبُ الْمُتَّقِینَ، وَعِزُّ الْمُوَحِّدِینَ»؛(۳۵۹)
«خدا را گواه می گیرم و فرشتگان الهی و خودت را گواه می گیرم ای مولای من که... تویی نظام دین و پیشوای پرهیزکاران و عزت بخش یکتاپرستان».
۲۴۴ - عزّت (و عزیز):
به معنای آبرو و شرف است که در هدایه الکبری از القاب امام زمان (علیه السلام) نام برده شده است.
«او» عزیز است و عزت دارد، چرا که خلیفه خداست و خدا نیز دارنده تمام عزت است:
«...فَإنَّ الْعِزَّهَ للهِ جَمِیعاً»؛(۳۶۰)
«...با این که همه عزّت ها از آن خداست!»
۲۴۵ - عصر:
به معنای دوران و زمان است که در کتاب ذخیره از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است و در قرآن به آن قسم یاد نموده است:(۳۶۱)
«وَالْعَصْرِ * إِنَّ الْإِنسانَ لَفِی خُسْرٍ»؛
«قسم به عصر و زمان، همانا انسان در خسران و زیان است».
۲۴۶ - عِصْمَهُ الدِّین:
یعنی حافظ و نگهبان دین و آیین خداوند که آن را از آسیب ها و لغزش ها و انحرافات نگه می دارد.
عصمه الدین نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) است؛ لذا در زیارتش می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا عِصْمَهَ الدِّینِ»؛(۳۶۲)
«سلام بر تو ای نگهبان و حافظ دین خدا».
۲۴۷ - عِصْمَهُ العباد(۳۶۳):
به معنای حافظ و نگهبان بندگان خدا که دچار لغزش و انحراف نشوند و این از لطف خداوند به بندگانش می باشد که دائماً مراقب آنان است، شاید که هدایت شوند و رستگار گردند.
۲۴۸ - عَقِیدُ العِزّ:
آن که وابسته و همراه دائمی عزت است، «او» عزیز است، چون خلیفه خدای عزیز است. «إِنَّ الله عَزِیزٌ حَکِیمٌ»(۳۶۴)؛ بلکه تمام عزت مال خداست: «فَإِنَّ الْعِزَّهَ للهِ جَمِیعاً».(۳۶۵)
و در دعای ندبه می گوییم:
«بِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ عَقِیدِ عِزٍّ لا یسامی؛(۳۶۶)
«به جانم قسم که تو از سرشت عزتی هستی که هیچ کس بر شما برتری نخواهد داشت».
۲۴۹ - عَلامت:
به معنای آیه و نشانه می باشد و از اوصاف و القاب امام زمان و سایر امامان (علیهم السلام) است؛ چنان که امام صادق (علیه السلام) در مورد آیه «وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ یهْتَدُونَ»(۳۶۷) فرموده است:
«نَحْنُ الْعَلاماتُ وَ النَّجْمُ رَسُولُ اللهِ؛(۳۶۸) علامات ما هستیم و نجم نیز رسول الله (صلی الله علیه وآله) است.»
۲۵۰ - عِلْم المَصْبُوب:
دانش خلیفه، امام و حجت خداوند بر روی زمین متصل به علم نامتناهی پروردگار است، لذا بر هر چیزی که خدا بخواهد آگاه است. و امام زمان (علیه السلام) اکنون تنها خلیفه خدا در زمین است، بنابراین علم الهی از او سرازیر است.
در زیارت آل یاسین به ایشان سلام می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الْعَلَمُ الْمَنْصُوبُ وَالْعِلْمُ الْمَصْبُوبُ»؛(۳۶۹)
«سلام بر تو ای پرچم برافراشته و دانش و علم ریزان».
۲۵۱ - عَلَم المَنْصوب:
به معنای «پرچم برافراشته شده» می باشد و از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است، چراکه او تنها امام و حجت خدا و راهنمای خلایق به سوی خداوند است. به وسیله اوست که مردم از ظلمت ها و گمراهی ها نجات می یابند. پس همه باید گرداگرد پرچم او جمع شوند. و لذا این گونه به ایشان سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الْعَلَمُ الْمَنْصُوبُ»؛(۳۷۰)
«سلام بر تو ای پرچم برافراشته».
۲۵۲ - عَلَم النُّور:
به معنای پرچم نور و روشنایی است، او عَلم برافراشته ای از نور است که در تاریکی های جهان نصب شده، تا مردم به وسیله او راهنمایی و هدایت شوند، به همین جهت است که او سفینه النجاه هم هست.
در اعمال ماه شعبان وارد شده است:
«... وَالعَلَمُ النُّورِ فِی طَخْیآءِ الدَّیجُورِ الغآئِبِ الْمَسْتُورِ...».(۳۷۱)
«او پرچم نور است در شام تاریک و ظلمانی دنیا، آن که خود غایب و پنهان است.»
۲۵۳ - عَلَم الهُدی:
امام زمان (علیه السلام) علامت، نشانه و پرچم هدایت خلق به سوی خداوند است، هر که می خواهد از چنگ ظلمت و گمراهی نجات یابد، باید به این پرچم متمسّک شود.
و در دعای بعد از زیارت آل یاسین برای او دعا می کنیم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَعَلَمِ الْهُدی؛(۳۷۲)
«خدایا درود فرست بر محمّد که حجت تو در روی زمین است... آن که پرچم هدایت خلق به سوی خداست».
۲۵۴ - عِماد:
به معنای ستون و پایه و تکیه گاه و اساس هر چیزی است، و اکنون «او» ستون و عماد خیمه دین است.
امام زمان (علیه السلام) عماد است، چون جانشین و خلیفه آن عمادی است که:
«یا عِمادَ مَنْ لا عِمادَ لَهُ»؛(۳۷۳)
«ای تکیه گاه هر آن که تکیه گاهی ندارد!»
۲۵۵ - عمادُ الإسلام:
از القاب امام زمان (علیه السلام) عماد الاسلام است، چون او اکنون پایه و اساس و ستون خیمه اسلام است.
چنان که در زیارت سرداب مقدّس که سید بن طاووس روایت کرده می گوییم:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... وَعِمادِ الإسْلامِ».(۳۷۴)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان،... او که اساس خیمه اسلام است».
۲۵۶ - عَیبَهِ الله:
به معنای صندوق و ذخیره اسرار الهی است و امام زمان (علیه السلام) چنین مقامی دارد.
در زیارت حضرت صاحب الامر (علیه السلام) وارد شده است که:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی حُجَّتِکَ... وَعَیبَتِکَ وَعَینِکَ فِی أَرْضِکَ، الْمُتَرَقِّبِ الْخآئِفِ»؛(۳۷۵)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت... او که صندوق اسرار و علوم تو، و چشم بینای تو در زمین است. همان که از جور و ستم دشمنان، دائم مراقب و نگران است».
۲۵۷ - عین:
عین به معنای چشم بیدار و دیده آگاه است.
اگرچه تمام امامان معصوم (علیهم السلام) چشم خدا هستند؛ ولی آن که اکنون حاضر و ناظر ماست، امام زمان (علیه السلام) است؛ چنان که در پیش گفته شد:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی حُجَّتِکَ... وَعَیبَتِکَ وَعَینِکَ فِی أَرْضِکَ، الْمُتَرَقِّبِ الْخآئِفِ»؛(۳۷۶)
۲۵۸ - عین الله:
به معنای چشم بینای خدا در بین خلق و آفریدگان او و از القاب امام زمان (علیه السلام) است. که در زیارت آن حضرت در روز جمعه می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا عَینَ الله فِی خَلْقِهِ»؛(۳۷۷)
«سلام بر تو ای چشم و دیده خدا در خلق او».
۲۵۹ - عینُ الله النّاظِره:
«او» ناظر بر تمام اعمال بندگان خداست، و این کار نیز به اذن خداوند می باشد که طبق آیه «وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَیرَی الله عَمَلَکُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ»؛(۳۷۸) هم خدا و هم پیامبر خدا(صلی الله علیه وآله) و مؤمنان اعمال بندگان را می بینند؛ و مؤمن واقعی، امام معصوم است که اینک امام زمان (علیه السلام) مصداق تامّ آن می باشد.
«... وَعَینِکَ النّاظِرَهِ بِإِذْنِکَ»؛(۳۷۹)
«... او که به امر و اذن تو بر بندگانت نظاره گر است».
۲۶۰ - عینُ الحَیاه:
به معنای چشمه حیات زندگی است و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) می باشد، چون هرکه به او متصل شد و از جام معرفت او نوشید، حیات ابدی می یابد.
لذا در زیارت آن حضرت در روز جمعه به ایشان سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا عَینَ الْحَیاهِ»؛(۳۸۰)
«سلام بر تو ای سرچشمه آب زندگانی».
۲۶۱ - غائب:
به معنای پنهان و مخفی است که از القاب مختصه و شایع امام زمان (علیه السلام) است و اخباری در این مورد رسیده است.
امام کاظم (علیه السلام) فرمود:
«هُوَ الطَّرِیدُ الوَحِیدُ الغَرِیبُ الغائِبُ عَنْ اَهْلِهِ الْمَوْتُورُ بِاَبِیهِ»؛(۳۸۱)
«امام زمان آن رانده شده تنها و غریب که از اهل خودش غایب است و هنوز انتقام خون پدرش را نگرفته است».
لذا در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«السَّلامُ عَلَی الإِمامِ الْعالِمِ، الْغائِبِ عَنِ الأَبْصارِ، وَالحاضِرِ فِی الاَمْصارِ، وَالغائِبِ عَنِ الْعُیونِ وَالحاضِرِ فِی الأَفْکَارِ،...»؛(۳۸۲)
«سلام بر آن امام عالم و آگاه که از دیده ها پنهان است، امّا در شهرها حاضر است و از چشم ها غایب است امّا در خاطره ها حاضر است،...».
و در جای دیگر می گوییم:
«اَللّهمّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَأَهلِ بَیتِهِ وَصَلِّ عَلی وَلِی الْحَسَنِ وَوارِثِهِ الْقائِم بِأمْرِکَ وَالْغائِبِ فِی خَلْقِکَ...»؛(۳۸۳)
«خدایا درود فرست بر محمّد و اهل بیت ایشان، و درود فرست بر جانشین امام عسکری (علیه السلام) و وارث او که به امر تو قیام خواهد کرد، او که در بین خلق پنهان و غایب است».
۲۶۲ - غاشیه:
امام صادق (علیه السلام) در مورد آیه «هَلْ أَتَیاکَ حَدِیثُ الْغاشِیهِ»(۳۸۴) آن را به امام زمان (علیه السلام) تأویل نموده و فرموده است:
«یغْشاهُمُ الْقائِمُ بِالسَّیفِ...»(۳۸۵)
۲۶۳ - غایهُ الطّالبین:
این عنوان را هدیه الکبری و دلائل الامامه از اوصاف و القاب امام زمان (علیه السلام) می دانند.(۳۸۶)
۲۶۴ - غایهُ القُصوی:
به معنای آخرین مرحله و نهایت دوردست می باشد که هدیه الکبری و دلائل الامامه این عنوان را نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده اند.(۳۸۷)
۲۶۵ - غایهُ النُّور:
یعنی نهایت نور که از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است و امام علی (علیه السلام) آن حضرت را توصیف فرموده اند:
«مِنّا خاتِمُ الاَئِمَّهِ وَمُنْقِذُ الاُمَّهِ وَغایهُ النُّورِ وَمَصْدَرُ الاُمُورِ»؛(۳۸۸)
«آخرین امام که امّت را نجات خواهد داد از ماست او که در نهایت نورانیت است و همه امور به ایشان بر می گردد».
۲۶۶ - غُرَّهُ الحَمِیدَه:
این عنوان نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) است، آنجا که در دعای عهد از خدا می خواهیم که رؤیت جمال دل آرای آن حضرت را نصیب ما بفرماید:
«اَللَّهُمَّ أَرِنِی الطَّلْعَهَ الرَّشِیدَهَ، وَالْغُرَّهَ الْحَمِیدَهَ»؛(۳۸۹)
«خدایا آن طلعت زیبای کمال یافته و آن پیشوای ستوده را به من بنمایان».
۲۶۷ - غریب:
«او» ناشناس است، غریب است، همان طور که اجداد طاهرینش غریب بودند، امّا غربت او از همه بیشتر است، چون سایر ائمه (علیهم السلام) را مردم می دیدند و می شناختند، امّا «او» را می بینند و نمی شناسند و او همه را می بیند و می شناسد.(۳۹۰)
امام کاظم (علیه السلام) فرمود:
«هُوَ الطَّرِیدُ الوَحِیدُ الغَرِیبُ الغائِبُ عَنْ اَهْلِهِ الْمُوتُور بِاَبِیهِ»؛(۳۹۱)
«امام زمان آن رانده شده تنها و غریب که از اهل خودش غایب است و هنوز انتقام خون پدرش را نگرفته است».
۲۶۸ - غریم:
علمای رجال می گویند این عنوان از القاب خاصه امام زمان (علیه السلام) است و اخبار زیادی نیز در این مورد آمده است.
غریم در لغت به معنای طلبکار و بدهکار است، امّا اینجا به معنای طلبکار است، یعنی طالب حقّ.
در آن زمان که شیعه در تقیه بود و امام در غیبت صغری و می خواستند وجوهاتی نزد حضرت بفرستند، از ایشان به غریم تعبیر می کردند.(۳۹۲)
مثلاً در جایی چنین آمده است:
«... کَتَبْتُ إِلَی الْغَرِیمِ بِذلِکَ وَسَأَلْتُهُ الدُّعآءَ فَخَرَجَ الجَوابُ...»؛(۳۹۳)
«برای «غریم» نامه ای نوشتم و درخواست دعا کردم که چنین جواب آمد...».
۲۶۹ - غلام:
غلام به معنای جوان و نوجوان است که در اخبار زیادی برای امام زمان (علیه السلام) به کار رفته است،(۳۹۴) خصوصاً آن هنگامی که هنوز امام عسکری (علیه السلام) زنده بودند.
احمد بن اسحاق می گوید: خدمت امام عسکری (علیه السلام) مشرف شدم تا از جانشین ایشان پرسش کنم... «فَنَطَقَ الغُلامُ (علیه السلام) بِلِسانٍ عَرَبِی فَصِیحٍ فَقالَ اَنَا بَقِیهُ الله فِی اَرْضِهِ وَالْمُنْتَقِمُ مِنْ اَعْدائِهِ...»؛(۳۹۵)
«آن نوجوان به زبان عربی فصیح شروع به سخن کرد و فرمود: من بقیه الله در زمین هستم، همان که از دشمنان خدا انتقام خواهد گرفت».
۲۷۰ - غَلیل:
در ذخیره الالباب از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده است و به معنای شدت تشنگی (برای دوستان) می باشد.(۳۹۶)
در دعای ندبه می خوانیم:
«وَبَرِّدْ غَلِیلَهُ یا مَنْ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوی؛(۳۹۷)
«و عطش و تشنگی او را فرو نشان ای کسی که بر عرش علم و عدل و رحمت استقرار داری».
۲۷۱ - غَوْث:
این عنوان نیز از القاب خاصه امام زمان (علیه السلام) است و به معنای فریادرس و پناهگاه می باشد، فریادرس بیچارگان و درماندگان، چون تنها اوست که قدرت و توانایی چنین کاری را به اذن خداوند دارد.(۳۹۸)
در زیارت آل یاسین می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الْعَلَمُ الْمَنْصُوبُ وَالْعِلْمُ الْمَصْبُوبُ وَالْغَوْثُ وَالرَّحْمَهُ الْواسِعَهُ»؛(۳۹۹)
«سلام بر تو ای پرچم برافراشته و علم ریزان الهی و پناه خلق و رحمت واسعه خدا».
۲۷۲ - غَوْثُ الفقراء:
به معنای فریادرس بینوایان و مستمندان، براساس حدیث امام عسکری (علیه السلام) که به فرزندش فرمود:
سخن بگو ای حجه الله و بقیه انبیا و نور اصفیا و غوث فقرا و خاتم اوصیا».(۴۰۰)
۲۷۳ - غیب:
به معنای نهان و غیر آشکار، در مقابل شهود و آشکار است.
«او» امام غایب است که از دیده ها پنهان است.
در کتاب ذخیره آن را از نام های امام زمان (علیه السلام) شمرده که در قرآن نیز ذکر شده و در کمال الدین شیخ صدوق روایتی است که امام صادق (علیه السلام) فرموده است:
«الم * ذلِکَ الْکِتابُ لَا رَیبَ فِیهِ هُدًی لِلْمُتَّقِینَ * الَّذِینَ یؤْمِنُونَ بِالْغَیبِ»(۴۰۱) فَقالَ: «اَلْمُتَّقُونَ» شِیعَهُ عَلِی وَ«الغَیبُ» فَهُوَ الْحُجَّهُ الغآئِبَ؛ متقون شیعیان امیرالمؤمنین (علیه السلام) هستند و غیب همان حجت و امام غایب است.(۴۰۲)
همچنین در مورد آیه «....فَقُلْ إِنَّما الْغَیبُ للهِ فَانتَظِرُوا إِنِّی مَعَکُم مِّنَ الْمُنتَظِرِینَ»(۴۰۳) فرموده است:
«اَلْغَیبُ فِی هذِهِ الآیهِ هُوَ الْحُجَّهُ الْقائِم.»(۴۰۴) مراد از غیب در این آیه، همانا حجّت قائم (علیه السلام) است.
۲۷۴ - فائز:
به معنای پیروز و ناجح است که امام زمان (علیه السلام) نیز مانند سایر امامان (علیهم السلام) این گونه توصیف شده است:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی حُجَّتِکَ... وَالْفآئِزِ بِأَمْرِکَ»؛(۴۰۵)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت... و آن که به فرمان تو پیروز و ناجح است».
همچنان که همه امامان فائز می باشند؛ لذا در زیارت جامعه کبیره می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکُمْ یا أَهْلَ بَیتِ النُّبُوَّهِ... الْفآئِزُونَ بِکَرامَتِهِ».(۴۰۶)
۲۷۵ - فاتح:
یعنی پیروز و فتح کننده جهان، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است. «او» که روزی خواهد آمد و سرتاسر جهان از شرق تا غرب عالم را فتح خواهد کرد و بر کره زمین، بلکه بر زمین و زمان حکومت خواهد نمود. و این لقب، تنها زیبنده اوست.
پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) فرمودند:
«الاَئِمَّهُ مِنْ بَعْدِی اثنا عَشَرَ، أَوَّلُهُمْ أَنْتَ یا عَلِی وَ آخِرُهُمْ القائِمُ الَّذِی یفْتَحِ الله تَعالی ذِکْرُهُ عَلی یدَیهِ مَشارِقَ الارْضِ وَ مَغارِبَها».(۴۰۷)
امامان بعد از من دوازده نفرند، اول آنان تویی ای علی و آخر ایشان همان قائمی است که خداوند متعال به وسیله او سر تا سر عالم از شرق تا غرب را فتح خواهد کرد.
۲۷۶ - فاتق:
به معنای کسی که کارها را رسیدگی می کند، و به رتق و فتق امور می پردازد، گره ها و مشکلات را حل می کند و به عبارت دیگر گشایشگر و گشاینده امور است.
از القاب امام زمان (علیه السلام) گفته شده است.
و در زیارت حضرت صاحب الامر می خوانیم:
«وَأَنَّکَ خازِنُ کُلِّ عِلْمٍ، وَفاتِقُ کُلِّ رَتْقٍ»؛(۴۰۸)
«گواهی می دهم که تو گنجینه هر دانشی هستی و گشاینده هر بسته ای».
۲۷۷ - فاضل:
صاحب فضیلت و دانشمند، و از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۴۰۹)
۲۷۸ - فتح:
به معنای فتح و پیروزی و گشایش در کارها که از القاب امام زمان (علیه السلام) است چنان که از کتاب هدایه الکبری نقل شده است.(۴۱۰)
و مراد از فتح در آیه شریفه «إِذَا جَآءَ نَصْرُ الله وَالْفَتْحُ»(۴۱۱) را به فتح قائم تعبیر کرده اند؛ یعنی آن گاه که پیروزی همراه با ظهور قائم (علیه السلام) محقق شود.(۴۱۲)
۲۷۹ - فجر:
فجر یعنی سپیده صبح و طلوع صبح؛ در کتاب تأویل الآیات شیخ شرف الدین نجفی از امام صادق (علیه السلام) روایت شده است که حضرت در تفسیر آیه «وَالْفَجْرِ»(۴۱۳) فرموده اند:
مراد از فجر، قائم (علیه السلام) است.
و نیز در مورد آیه «سَلامٌ هِی حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ»(۴۱۴) فرموده: یعنی تا آن گاه که قائم برخیزد و ظاهر شود.(۴۱۵)
صاحب عبقری الحسان چند وجه برای تسمیه آن حضرت به فجر ذکر کرده است از جمله این که:
۱) ظهور آن حضرت مثل خورشید، تاریکی ها را می زداید.
۲) شرافت این دو زمان بسیار است.
۳) ظهور او را مثل طلوع فجر، فقط تعدادی از خاصّان به انتظار نشسته اند.
۴) مثل طلوع فجر صادق که فجر کاذب هم دارد، مدعیان دروغین مهدویت نیز هستند.
۵) زمان ظهور را مانند طلوع فجر، منادیان الهی ندا می دهند.
۶) تا قبل از آفتاب، ستارگان می درخشند، قبل از ظهور نیز علما مانند ستاره می درخشند؛ امّا او که ظهور کرد همه تحت الشعاع قرار می گیرند.(۴۱۶)
۲۸۰ - فرج:
علی بن مهزیار می گوید: به ابوالحسن (علیه السلام) نامه نوشتم و از «فرج» سؤال کردم، مرقوم فرمود:
«اِذا غَابَ صَاحِبُکُمْ عَنْ دارِ الظّالِمِینَ فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ»؛(۴۱۷)
«آن گاه که صاحب شما از دیار ظالمان غایب شد، پس منتظر فرج باشید».
۲۸۱ - فرج آل محمّد:
به وسیله اوست که برای آل محمّد(علیهم السلام) فرج و گشایش حاصل می شود.
امام باقر (علیه السلام) فرموده است:
«اَذا رَأَیتُمْ ناراً مِنْ قِبَلِ المَشْرِقِ شِبْهِ الْهِردِی العَظِیمِ تَطْلُعُ ثَلاثَه أَیامٍ أَوْ سَبْعَهَ فَتَوَقَّعُوا فَرَجَ آلِ مُحَمَّدٍ(علیهم السلام) اِنْ شاءَ اللهُ»؛(۴۱۸)
«آن گاه که آتشی از جانب مشرق دیدید شبیه گل سرخ بزرگ، سه یا هفت روز طلوع می کند پس منتظر فرج آل محمّد باشید ان شاء الله».
۲۸۲ - فرج اعظم:
به معنای گشایش و فرج بزرگ و برتر که در کتاب هدایه الکبری آن را از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده است.
امام رضا (علیه السلام) فرموده اند: هرگاه عالم شما از میان شما غایب شد، پس منتظر فرج اعظم باشید.(۴۱۹)
۲۸۳ - فرج مؤمنان:
«او» سبب گشایش کار ایمان آورندگان است.
لذا در کتاب هدایه الکبری و دلائل الامامه گفته اند، فرج مؤمنان از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) است.(۴۲۰)
و در زیارت آن حضرت در روز جمعه می گوییم:
«وَیفَرَّجُ بِهِ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ»؛(۴۲۱)
«به وسیله او برای اهل ایمان فرج و گشایش حاصل می گردد».
۲۸۴ - فرخنده:
کتاب های ذخیرهالالباب و تذکره الائمه گفته اند: در کتاب شعیای پیامبر، موعود آخر الزمان به «فرخنده» نامیده شده است.(۴۲۲)
۲۸۵ - فرد:
به معنای تنها و از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد؛ چنان که امام باقر (علیه السلام) در روایتی فرموده است: وَ هُوَ الْفَرْدُ مِنْ اَهْلِهِ....(۴۲۳)
۲۸۶ - فردوس اکبر:
تذکره الائمه از کتاب قبروس رومیان نقل کرده است که این اسم امام زمان (علیه السلام) و موعود آخر الزمان است.(۴۲۴)
۲۸۷ - فرید:
به معنای بی همتا، چون «او» تنها و آخرین وصی آخرین پیامبر خداست.
اصبغ بن نباته از امیرالمؤمنین (علیه السلام) روایت کرده که فرمود:
«صاحِبَ هذَا الأَمْرِ الشَّرِید الطَّرِید الْفَرِید الْوَحِید»؛(۴۲۵)
«صاحب این امر همان تنهای رانده شده و بی همتای یگانه است».
از امام صادق و امام باقر(علیهما السلام) نیز چنین نقل شده است.(۴۲۶)
و در قسمتی از زیارت سرداب آمده است:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الامامُ الْفَرِیدُ».(۴۲۷)
«سلام بر تو ای آقایی که امام تنها و بی همتایی!»
۲۸۸ - فِطرهُ الاَنام(۴۲۸):
به معنای آمیخته با فطرت و سرشت خلایق و بندگان خدا می باشد که با آن امام زمان توصیف شده است؛ چنان که در نسخه ای به جای نظره الایام، فطره الانام آمده است.
۲۸۹ - فقید:
به معنای از دست رفته، چون امام زمان (علیه السلام) از دسترس خلق به دور است، «او» غایب است تا روزی که جهان آماده پذیرش آن حضرت گردد و خداوند مصلحت بداند و ظهور کند.
امام علی (علیه السلام) فرموده است:
«... ذاکَ الفَقِیدُ الطَّرِیدُ وَالشَّرِیدُ م حم د بْنُ الحَسَنِ بْنِ عَلِی بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی بْنِ مُوسَی بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی بْنِ الحُسَینِ هذا وَوَضَعَ یدَهُ عَلی رَأْسِ الحُسِینِ (علیه السلام)»؛(۴۲۹)
«او امام از دست رفته و تنها و رانده شده است، م حم د بن حسن بن علی بن محمّد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمّد بن علی بن الحسین، یعنی این حسین. و دست مبارک را بر سر امام حسین (علیه السلام) قرار داد».
۲۹۰ - فقیه:
به معنای عالم و اسلام شناس است.
در توقیعات امام زمان (علیه السلام)، و سؤالاتی که نوّاب خاص و اصحاب امام زمان (علیه السلام) از آن حضرت داشته اند، تعبیر به فقیه شده است. که یقیناً مراد از فقیه، امام زمان (علیه السلام) می باشد.(۴۳۰)
از جمله در تهذیب الاحکام شیخ طوسی روایتی از محمّد بن عبد الله حمیری نقل شده که به فقیه نامه نوشتم و چنین سؤال کردم و جواب آمد.(۴۳۱)
۲۹۱ - فَلّاق الهام:
به معنای شکافنده فرْق سرمی باشد که با این عنوان امام زمان (علیه السلام) توصیف شده است؛ از جمله در زیارت نامه مربوط به ایشان آمده است:
«اَلسَّلامُ عَلی صاحِبِ الصَّمْصامِ وَفَلّاقِ الْهامِ»؛(۴۳۲)
«سلام بر صاحب شمشیر قدرت و شکافنده فرق اهل ظلم و جهالت».
۲۹۲ - فیذموا:
«فیذموا» نام موعود آخر الزمان است که در کتاب مسیحیان آمده است و به عقیده ما همان امام دوازدهم شیعیان است؛ چنان که کعب الاحبار، اسامی دوازده امام را که به عدد نقبای بنی اسرائیل است از کتاب تورات چنین نامیده است:
۱) نقرثیب ۲) قیذوا ۳) دبیرا ۴) مسفورا ۵) مسموعاه ۶) دموه ۷) میثو ۸) هذار ۹) یثیموا ۱۰) بطور ۱۱) نوقس ۱۲) فیذموا.(۴۳۳)
کتاب المناقب نیز از انجیل نقل کرده است که اسم امام زمان (علیه السلام) «فیذموا» است.(۴۳۴)
۲۹۳ - فیروز:
به معنای شخص پیروز که کتاب های ذخیره الالباب و تذکره الائمه گفته اند: اسم موعود آخرالزمان، نزد «آمان» به لغت ماچار، «فیروز» است.(۴۳۵)
۲۹۴ - قائم:
به معنای ایستاده و قیام کننده می باشد که از مشهورترین القاب امام زمان (علیه السلام) است.
«او» قائم است؛ یعنی به فرمان خداوند قیام و ظهور می کند و جهان را از عدل و داد پر می کند.
در اخبار، روایات، دعاها و زیارت نامه ها مکرر از امام زمان (علیه السلام) با این نام یاد شده است.(۴۳۶)
اگرچه همه امامان قائم به امر امامت و هدایت بوده اند، امّا آن که در آخر الزمان قیام خواهد کرد و جهان را پر از عدل و داد می کند، او مهدی موعود، حجه بن الحسن العسکری (علیه السلام) است.
از امام کاظم (علیه السلام) سؤال شد:
أَنْتَ الْقائِمُ بِالْحَقِّ؟ آیا شما قائم به حقّ هستید؟
فرمود: «أَنَا الْقائِمُ بِالْحَقِّ وَ لکِنَّ الْقائِمُ الَّذِی یطَهِّرُ الارْضَ مِنْ أَعْداءِ الله وَ یمْلَؤُها عَدْلاً کَما مُلِئَتْ جَوْراً هُوَ الْخامِسُ مِنْ وُلْدِی....»(۴۳۷) «من قائم به حقّ هستم ولی آن قائمی که زمین را از لوث وجود دشمنان خدا پاک می کند و آن را از قسط و عدل پر می کند؛ همان طور که از جور و ستم پر شده باشد، او پنجمین فرزند من است....»
گفته شده در زبور سیزدهم و در کتاب بر لبوموا هم اسم آن جناب «قائم» ذکر شده است.(۴۳۸)
لذا خوب است هرجا هستیم به یاد او باشیم و بر او چنین سلام دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَی الْقآئِمِ الْمُنْتَظَرِ وَالْعَدْلِ الْمُشْتَهَرِ»؛(۴۳۹)
«سلام بر آن قائم به انتظار نشسته و آن که عدلش همه جا مشهور گشته».
۲۹۵ - قائم آل محمّد:
همه امامان معصوم (علیهم السلام) طبق فرمایش امام صادق (علیه السلام) قائم هستند، قیام به امر امامت و فرمان خدا می کنند، امّا قائم آل محمّد معروف، لقب امام زمان (علیه السلام) شده است؛ از جمله امام باقر (علیه السلام) در تفسیر آیه وَ یحِقّ الْحَقَّ بِکَلِماتِهِ
فرمود:
یعْنِی بِالائِمَّهِ وَ الْقائِمِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ...»(۴۴۰).
همچنین از خود امام زمان (علیه السلام) نقل شده که در یکی از تشرّفات فرموده اند: اَنَا القائِمُ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ...(۴۴۱)
۲۹۶ - قائم الزّمان:
این عنوان از اوصاف و القاب امام زمان است؛ چنان که در کتاب کمال الدین و تمام النعمه حکایتی نقل شده است که شخصی در مسجد الحرام خدمت آن حضرت مشرف شد و حضرت سنگی را برای او طلا کرد.
آقا از او پرسید: مرا می شناسی؟
عرض کرد: نه.
فرمود: من مهدی ام، من قائم الزمان هستم.(۴۴۲)
۲۹۷ - قائم به امر الله:
امام زمان (علیه السلام) قائم است و قیامش نیز به فرمان خدا و برای خداوند است.
«اللّهمّ صَلِّ عَلی وَلِیکَ الْمُحْیی سُنَّتَکَ، القَائِمِ بِأَمْرِکَ»؛(۴۴۳)
«خدایا درود فرست بر ولی خودت آن که سنّت تو را احیا می کند و به فرمان تو قیام می نماید».
و در دعای عهد با آن حضرت می گوییم:
«اَللَّهُمَّ بَلِّغْ مَوْلانَا الْإِمامَ الْهادِی الْمَهْدِی، الْقآئِمَ بِأَمْرِکَ، صَلَواتُ الله عَلَیهِ... مِنَ الصَّلَواتِ زِنَهَ عَرْشِ اللهِ»؛(۴۴۴)
«خدایا درودهای بی پایان و به وزن عرش خودت را به مولای ما برسان آن که امام هادی و مهدی است، او که به فرمان تو قیام خواهد کرد».
۲۹۸ - قائم به قسط:
او قائم است و به فرمان خداوند قیام می کند تا قسط و عدل را به پا کند و جهان را از عدالت پر نماید.
و چنین است قسمتی از زیارت آن حضرت:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ، وَخَلِیفَتِکَ فِی بِلادِکَ، وَالدّاعِی إِلی سَبِیلِکَ، وَالْقآئِمِ بِقِسْطِکَ»؛(۴۴۵)
«خدایا درود فرست بر ولی عصر که حجت تو در زمین و جانشین در تمام شهرهاست، او که به راه تو دعوت می کند و برای قسط و عدل تو قیام می نماید».
۲۹۹ - قائم مقام:
قائم مقام و جانشین، از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) است چون او قائم مقام و جانشین امامان قبل از خود و ایشان نیز قائم مقام رسول خدا(صلی الله علیه وآله) می باشند.
چنان که در زیارت سرداب مقدّس که سید بن طاووس نقل کرده، آمده است:
«اَلسَّلامُ عَلی... حُجَّهُ الله وَابْنُ رَسُولِهِ وَالقَّیمُ مَقامُهُ»؛(۴۴۶)
«سلام بر حجت خدا و فرزند رسول خدا که قائم مقام او می باشد».
۳۰۰ - قابض:
در کتاب مناقب و هدایه الکبری از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است.(۴۴۷)
در لغت به معنای گیرنده و درآورنده و گاه بیرون کشنده و نیز به معنای میراننده هم هست.
۳۰۱ - قاتلُ الکَفَرَه:
از اوصاف امام زمان (علیه السلام) به معنای کشنده کافران است، آنان که با وجود دیدن حقّانیت امام زمان (علیه السلام) و بعد از این که اسلام را به آنان عرضه می کنند، از پذیرش آن سر باز می زنند.
همچنین حدیثی از پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) نقل شده که فرمودند:
دجال بیرون می آید و در اغوا و اضلال مبالغه می کند، پس امیر امره و قاتل کفره و سلطان مأمول ظاهر می شود که عقول در غیبت او متحیر است، ای حسین او نهم از فرزندان توست. بین رکنین ظاهر می شود و بر ثقلین غلبه می کند.(۴۴۸)
۳۰۲ - قاصم:
به معنای شکننده و درهم کوبنده است و از القاب صاحب الزمان (علیه السلام) می باشد.
«او» است که می آید و ستمکاران و ظالمان و معاندان و غاصبان را در هم می کوبد. لذا در دعای ندبه دنبال چنین شخصی می گردیم:
«أَینَ قاصِمُ شَوْکَهِ الْمُعْتَدِینَ»؛(۴۴۹)
«کجاست آن که شوکت و قدرت ستمکاران و متعدیان را در هم می شکند».
و در زیارت به ایشان سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا قاصِمَ شَوکَهِ الْمُعْتَدِینَ»؛(۴۵۰)
«سلام بر تو ای در هم کوبنده شوکت و قدرت ستمکاران».
۳۰۳ - قاطع:
به معنای قطع کننده و برّان است.
از کتاب ذخیره و تذکره الائمه نقل شده که اسم آن حضرت در کتاب قنطره، «قاطع» می باشد.(۴۵۱)
و در دعای ندبه آمده است:
«أَینَ قاطِعُ حَبآئِلِ الْکِذْبِ وَالاِفْتِرآءِ»؛(۴۵۲)
«کجاست آن که دسیسه های دروغ و افتراء و خدعه های اهل بدعت و ضلالت را از ریشه قطع خواهد کرد؟»
لذا به آن حضرت چنین سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا طامِسَ آثارِ الزَّیغِ وَالاَهْواءِ وَقاطِعَ حَبائِلِ الْکِذْبِ وَ الافْتِراءِ...».(۴۵۳)
«سلام بر تو ای آقایی که آثار اندیشه های باطل و هواهای نفسانی را محو و نابود می گردانی و جعل و دسیسه های دروغ و افترا را از ریشه قطع خواهی کرد.»
۳۰۴ - قسط:
به معنای عدالت و دادگری است و از القاب صاحب الزمان (علیه السلام) می باشد. و چون امام زمان (علیه السلام) برپا کننده عدل و داد در سراسر جهان است پس چنین لقبی زیبنده آن حضرت است.
از هدایه الکبری نقل شده که قسط لقب امام زمان (علیه السلام) است.(۴۵۴)
۳۰۵ - قَصر مَشید:
یعنی قصر و کاخ برافراشته، منظور امام است آن گاه که ظاهر شود و قیام نماید.
علی بن ابراهیم در مورد آیه شریفه «وَبِئْرٍ مُعَطَّلَهٍ وَقَصْرٍ مَشِیدٍ»(۴۵۵) می گوید:
«هذا مَثَلٌ لآلِ مُحَمَّدٍ لِلإِمامِ الْقآئِمِ دَلَّ عَلی غِیبَتِهِ فَالْبِئرُ الْمُعَطَّلَهُ الإِمامُ وَهُوَ مُعَطَّلٌ لا یقْتَبِسَ مِنْهُ الْعِلْمَ...»؛(۴۵۶)
«این مثلی است برای آل محمّد، برای امام قائم که بر غیبت او دلالت دارد؛ پس چاه معطّل، آن امامی است که معطّل مانده و از علم او استفاده نمی شود...».
۳۰۶ - قُطب:
قطب به معنای محور است، چون وجود مقدّس امام زمان (علیه السلام) محور و قطب وجود سایر موجودات است که «بِیمْنِهِ رُزِقَ الوَری وَبِوُجُودِهِ ثَبَتَتِ الأَرْضُ وَالسَّمآءُ».(۴۵۷)
این لقب نزد طایفه عرفا و صوفیه بیشتر شایع است.
شیخ کفعمی در حاشیه جنه الواقیه در دعای امّ داوود، آنجا که فرموده اللّهمّ صل علی الابدال والاوتاد... گفته:
دنیا خالی نیست از قطب و چهار اوتاد و چهل ابدال و هفتاد نجیب و ۳۶۰ صالح؛ پس قطب مهدی است.(۴۵۸)
و علامه مجلسی از آن حضرت چنین تجلیل و تمجید می کند:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی... خُصُوصَاً عَلی عَنْقآءِ قافِ القَدَمِ القآئِمِ، فَوْقِ مِرقاهِ الهِمَمِ، اَلإِسْمِ الأَعْظَمِ الالهِی، اَلْحاوِی لِلْعِلْمِ الْغَیرِ الْمُتَناهِی، قُطْبِ رَحَی الْوُجُودِ وَمَرْکَزِ دَائِرَهِ الشُّهُودِ...».(۴۵۹)
۳۰۷ - قَمَر الزّاهر:
به معنای ماه تابان و درخشان و روشنی بخش می باشد که از اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده است؛ چنان که در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَی السَّیفِ الشّاهِرِ وَالْقَمَرِ الزّاهِرِ وَالنُّورِ الْباهِرِ»؛(۴۶۰)
«سلام بر آن صاحب شمشیر از نیام کشیده برای دشمنان حقّ، سلام بر آن ماه تابان و نور درخشان در تاریکی های دنیا».
۳۰۸ - قوام:
به معنای استحکام و استواری است و از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) می باشد؛ چنان که در دعای ندبه می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ وَنَحْنُ عَبِیدُکَ التّآئِقُونَ إِلی وَلِیکَ الْمُذَکِّرِ بِکَ وَبِنَبِیکَ خَلَقْتَهُ لَنا عِصْمَهً وَ مَلاذاً وَ أَقَمْتَهُ لَنا قِواماً وَ مَعاذاً»؛(۴۶۱)
«خدایا ما همه بندگان تو مشتاق ظهور ولی تو هستیم، او که یادآور تو و رسول توست تو او را برای عصمت و نگه داری و پناه دین و ایمان ما آفریدی و او را برانگیخته ای تا قوام و حافظ و پناه خلق باشد».
۳۰۹ - قوّه:
به معنای توان و نیرو است که در هدایه الکبری از القاب امام زمان (علیه السلام) دانسته شده است.(۴۶۲)
امام صادق (علیه السلام) در تفسیر آیه شریفه «لَوْ أَنَّ لِی بِکُمْ قُوَّهً...»(۴۶۳) که حضرت لوط از خدا تقاضا کرد، فرمود: منظور امام زمان (علیه السلام) است.(۴۶۴)
امام باقر (علیه السلام) فرموده است:
«لابُدَّ لِصاحِبِ هذَا الأَمْرِ مِنْ عُزْلَهِ وَلابُدَّ فِی عُزْلَتِهِ مِنْ قُوَّهٍ وَما بِثَلاثِینَ مِنْ وَحْشَهٍ....»؛(۴۶۵)
«حتماً برای صاحب این امر عزلتی خواهد بود و در این عزلت قدرتی است و با نیروی چهل نفر این چنین هیچ نگرانی نیست...».
و امام سجاد (علیه السلام) فرمود:
برای هر کدام از یاران آن حضرت قوه و نیروی ۴۰ مرد است.(۴۶۶)
۳۱۰ - قیامت:
از امامان معصوم (علیهم السلام) روایت شده که «الساعه والقیامه» را به امام زمان (علیه السلام) تأویل نموده اند و از هدایه الکبری نقل شده که «قیامت» لقب آن حضرت است.(۴۶۷)
۳۱۱ - قَیم الزّمان:
«او» سرپرست زمان است، «او» امیر زمان و صاحب زمان است، چنان که در دعای عدیله می خوانیم:
«وَبِیمْنِهِ رُزِقَ الْوَری وَبِوُجُودِهِ ثَبَتَتِ الْأَرْضُ وَالسَّمآءُ»؛(۴۶۸)؛
«به برکت وجود اوست که همه روزی می خورند و آسمان و زمین استقرار دارند».
قیم الزمان از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۴۶۹)
۳۱۲ - کارّ:
به معنای رجوع کننده و بازگردیده و بازگرداننده است که در کتاب ذخیره از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده، چون آن حضرت از عالم غیب و استتار و مجانبت مساکن اشرار بر می گردد.(۴۷۰)
و جمعی از مردگان را نیز بر می گرداند، یعنی برخی از بدترین دشمنان خدا و بعضی از بهترین دوستان خدا رجعت می کنند.
بحث رجعت از اعتقادات مسلّم شیعه است که باید در جای خود مورد بحث و مطالعه قرار گیرد.
۳۱۳ - کاشِفُ البَلوی:
به معنای بر طرف کننده همّ و غمّ می باشد و از القاب امام زمان (علیه السلام) است چنان که در قسمتی از زیارت آن حضرت آمده است:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَکاشِفِ الْبَلْوی صَلَواتُ الله عَلَیهِ وَعَلی آبآئِهِ»؛(۴۷۱)
«خدایا! درود فرست بر محمّد که حجت تو در زمین است... او که برطرف کننده همّ و غم و بلیات خلق است....».
۳۱۴ - کاشفُ الغِطاء:
به معنای برطرف کننده پرده ها و حجاب ها و پوشش هاست. که در کتاب هدایه الکبری آن را از القاب امام زمان (علیه السلام) دانسته است.(۴۷۲)
۳۱۵ - کتاب مستور(۴۷۳):
به معنای کتاب نوشته شده پوشیده، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده است.
۳۱۶ - کتاب مسطور:
از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام)، کتاب مسطور است، این هم قسمتی از دعا برای صاحب الامر:
«اَلسَّلامُ عَلَی الدِّینِ الْمَأْثُورِ وَالْکِتابِ الْمَسْطُورِ»؛(۴۷۴)
«سلام بر آن دینی (یعنی حافظ دین) که از پیامبر رحمت رسیده است و سلام بر آن کتاب رقم شده به قلم حکمت الهی».
۳۱۷ - کرّار:
«کرّار غیر فرّار» یعنی رزمنده و مجاهدی که همه اش در حال حمله است و هیچ گاه فرار نمی کند، این عنوان اگرچه از القاب امیرالمؤمنین (علیه السلام) است، لکن امام زمان (علیه السلام) نیز فرزند و وارث آن حضرت است و او نیز به کرار توصیف می شود لذا در کتاب دلائل الامامه، کرّار را از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده و آن حضرت را به این عنوان توصیف نموده است.(۴۷۵)
۳۱۸ - کریم:
به معنای بخشنده و اهل جود و بخشش است، امام زمان (علیه السلام) مانند اجداد طاهرین خود سرآمد همه کریمان و از القاب ایشان است.
در زیارت آن حضرت در روز جمعه می خوانیم:
«وَأَنْتَ یا مَوْلای کَرِیمٌ مِنْ أَوْلادِ الْکِرامِ»؛(۴۷۶)
«ای مولا و آقای من، تو هم خود کریم هستی و هم از فرزندان اهل کرم می باشی».
۳۱۹ - کلمه الله:
«او» کلمه الله، بلکه کلمه تامّه الهی است که در زیارتشان می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَکَلِمَتِکَ وَعَیبَتِکَ وَعَینِکَ فِی أَرْضِکَ، الْمُتَرَقِّبِ الْخآئِفِ»؛(۴۷۷)
«خدایا درود فرست بر محمّد که حجت تو در روی زمین است... و بر او که کلمه تام و روح اعظم الهی است در خلق زمین و آسمان، همان که مراقب و نگران است».
لذا از خداوند می خواهیم که:
«وَأَظْهِرْ کَلِمَتَکَ التّآمَّهَ، وَمُغَیبَکَ فِی أَرْضِکَ الْخآئِفَ الْمُتَرَقِّبَ»؛(۴۷۸)
«خدایا آن کلمه تامه و حجت بالغه خودت را در روی زمین که از بیم رقیبان در پرده غیب پنهان داشتی را ظاهر نما».
۳۲۰ - کلمه الحق:
کتاب ذخیره الالباب و تذکره الائمه نقل کرده اند که نام امام زمان (علیه السلام) در صحیفه، کلمه الحق است.(۴۷۹)
پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) نام امامان (علیهم السلام) را یک به یک بیان می کرد تا رسید به امام عسکری (علیه السلام) که فرمود:
«یخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ کَلِمَهُ الْحَقِّ وَلِسانُ الصِّدْقِ وَمُظْهِرُ الْحَقِّ، حُجَهُ الله عَلَی بَرِیتِهِ، لَهُ غَیبَهٌ طَوِیلَهٌ، یظْهَرُ الله تَعالی بِهِ الاسْلامَ وَاَهْلَهُ وَیخْسِفُ بِهِ الکُفْرَ وَاَهْلَهُ»؛(۴۸۰)
«کلمه حق و لسان صدق و اظهار کننده حقّ از امام عسکری (علیه السلام) به دنیا خواهد آمد، او که حجت خداوند بر خلایق است و غیبتی طولانی خواهد داشت. خداوند متعال به وسیله او اسلام و مسلمانان را ظاهر و غالب می کند و کفر و کافران را نابود خواهد کرد».
و این نیز قسمتی از زیارت امین الله است که از خداوند می خواهیم:
«وَ أَظْهِرْ کَلِمَهَ الْحَقِّ وَاجْعَلْهَا الْعُلْیا»؛(۴۸۱)
«خدایا کلمه حقّ را ظاهر نما و آن را برتر و والا قرار ده».
۳۲۱ - کلمه المحمود:
امام زمان (علیه السلام) به کلمه المحمود نیز توصیف شده است، چنان که در زیارت ایشان می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلی حُجَّهِ الْمَعْبُودِ وَکَلِمَهِ الْمَحْمُودِ»؛(۴۸۲)
«سلام بر حجت خداوند معبود و بر کلمه محمود».
و در جای دیگر این گونه سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا کَلِمَهُ الْمَحْمُودِ»؛(۴۸۳)
«سلام بر تو ای آقایی که کلمه خدای محمود هستی».
۳۲۲ - کلمه باقیه:
امام سجاد (علیه السلام) در مورد آیه «وَجَعَلَها کَلِمَهً باقِیهً فِی عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ یرْجِعُونَ»(۴۸۴) فرمود: این آیه در مورد ما نازل شده است و امامت تا روز قیامت در نسل حسین بن علی بن ابی طالب (علیهم السلام) می باشد و برای قائم ما دو غیبت است که یکی از دیگری طولانی تر است....(۴۸۵)
۳۲۳ - کمال:
از هدایه الکبری نقل شده است که کمال از القاب امام زمان (علیه السلام) است؛(۴۸۶) چنان که فرموده اند:
«عَلَیهِ کَمالُ مُوسی»؛(۴۸۷)
«امام زمان (علیه السلام) کمال موسی را دارد».
علامه مجلسی نیز در تجلیل از امام زمان (علیه السلام) می گوید:
««اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی.. قُطْبِ رَحْی الْوُجُودِ وَمَرْکَزِ دائِرَهِ الشُّهُودِ، کَمالُ النَّشْأَهِ وَمَنْشأ الکَمالِ، جَمالُ الْجَمْعِ وَمَجْمَعُ الْجَمالِ»؛(۴۸۸)
۳۲۴ - کوکما:
طبق نقل کتاب ذخیره الالباب، نام امام زمان (علیه السلام) در کتاب نجتا، کوکما می باشد،(۴۸۹) و آنان موعود آخرالزمان را به این نام می خوانند.
۳۲۵ - کهف:
به معنای پناه و پناهگاه می باشد و نام سوره ای از قرآن است و امام زمان (علیه السلام) پناهگاه همه دردمندان و بیچارگان است؛ اگرچه پیامبر(صلی الله علیه وآله) و تمام امامان (علیهم السلام) پناهگاه هستند، کهف هستند، و کهف الحصین نیز می باشند:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، الْکَهْفِ الْحَصِینِ، وَغِیاثِ الْمُضْطَرِّ الْمُسْتَکِینِ».(۴۹۰)
و چنین است قسمتی از زیارت سرداب مقدّس:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... والْخَلَفِ الْحَسَنِ الإمامِ الْمُؤْتَمَن وَالْقائِم الْمُعْتَمَدِ وَالْمَنْصُورِ الْمُؤَید وَالْکَهْفِ...».(۴۹۱)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان،... و آن جانشین امام حسن عسکری (علیه السلام) آن امام امین و آن امام قائم که تکیه گاه خلق است و به تأیید الهی پیروز و پناه همگان است».
۳۲۶ - کیقباد دوم:
از کتاب های ذخیره و تذکره الائمه نقل شده است که مجوس و گبران عجم به موعود آخر الزمان نام «کیقباد دوم» نهاده اند. کیقباد دوم به معنای عادل بر حقّ می باشد.(۴۹۲)
۳۲۷ - لا شبیه له:
یعنی کسی که خداوند هیچ شبیه و نظیری برای او قرار نداده است.
«او» بی نظیر، بی بدیل و بی شبیه است و دومی ندارد؛ اگرچه بسیاری از خصوصیات و ویژگی ها و اوصاف انبیا و اولیای گذشته را داراست.
کتاب مناقب قدیمه و هدایه الکبری آن را از القاب امام زمان (علیه السلام) دانسته اند.(۴۹۳)
۳۲۸ - لسانُ الصِّدق:
به معنای زبان راستی و حقیقت گو می باشد.
اسم امام زمان (علیه السلام) در صحیفه، لسان الصدق است، چنان که در ذخیره و تذکره الائمه گفته شده است.(۴۹۴)
پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) امامان (علیهم السلام) را نام می برد تا به امام عسکری (علیه السلام) رسید که فرمود:
«یخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ کَلِمَهُ الْحَقّ وَلِسانُ الصِّدْقِ وَمُظْهِرُ الْحَقِّ، حُجَهُ الله عَلَی بَرِیتِهِ، لَهُ غَیبَهٌ طَویلَه، یظْهَرُ الله تعالی بِهِ الاسْلامُ وَاَهْلَه وَیخْسِفُ بِهِ الکُفْر وَاَهْلَهُ»؛(۴۹۵)
«کلمه الحق و لسان صدق و اظهار کننده حقّ از امام عسکری به دنیا خواهد آمد، او که حجت خداوند بر خلایق است و غیبتی طولانی خواهد داشت. خداوند متعال به وسیله او اسلام و مسلمانان را ظاهر و غالب می کند و کفر و کافران را نابود خواهد کرد».
۳۲۹ - لسان الله:
به معنای زبان گویای خداست که از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد؛ اگرچه امامان (علیهم السلام) فرموده اند:
«نَحْنُ لِسانُ اللهِ»؛ همه ما زبان گویای خداییم.(۴۹۶)
در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا لِسَانَ الله الْمُعَبّر عَنْهُ»؛(۴۹۷)
«سلام بر تو ای زبان گویای خداوند که از جانب او سخن می گویی».
و برایش دعا می کنیم:
«اَللَّهُمَّ ادْفَعْ عَنْ وَلِیکَ وَخَلِیفَتِکَ وَحُجَّتِکَ عَلی خَلْقِکَ وَلِسانِکَ الْمُعَبِّرِ عَنْکَ»؛(۴۹۸)
«خدایا هر بلایی را از ولی خود، و خلیفه خویش و حجت بر خلق عالم دفع کن، همان که زبان توست و از جانب تو سخن می گوید».
۳۳۰ - لندیطارا:
این عنوان را در کتاب ذخیره و تذکره الائمه ذکر کرده اند که اسم موعود آخر الزمان در کتاب هزار نامه هند، لندیطارا است.(۴۹۹)
۳۳۱ - لوای اعظم:
به معنای پرچم و علم بزرگ و شکوهمند است که هدایه الکبری گفته از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۵۰۰)
یعنی پرچمی بالاتر از پرچم او نیست و بر همه پرچم ها پیروز خواهد شد، چون پرچم او پرچم اسلام است و طبق حدیث شریف نبوی (صلی الله علیه وآله):
«اَلاسَلامُ یعْلُو وَلا یعْلی عَلَیهِ»؛
«اسلام پیروز و سرافراز است و چیزی بر آن چیره نمی شود».
۳۳۲ - ماءِ مَعین:
به معنای آب ظاهر و جاری روی زمین است که در دسترس همگان می باشد.
ماء معین از القاب امام زمان (علیه السلام) است که از آیه قرآن کریم اقتباس و تأویل شده است.
امام باقر (علیه السلام) در تفسیر آیه شریفه «قُلْ أَرَءَیتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مآؤُکُمْ غَوْراً فَمَنْ یأْتِیکُمْ بِمآءٍ مَعِینٍ»؛(۵۰۱) فرمود:
این آیه درباره قائم نازل شده است.(۵۰۲)
۳۳۳ - ماشع:
از کتاب ذخیره الالباب نقل شده که گفته است:
در تورات عبری نام موعود آخرالزمان ماشع است.(۵۰۳)
تذکره الائمه نیز گفته است در توراتی که نزول آن آسمانی است.(۵۰۴)
۳۳۴ - مالک:
از اوصاف امام زمان (علیه السلام) مالک است؛ چنان که امام باقر (علیه السلام) در تأویل آیه «الَّذِینَ إِن مَّکَّنَّاهُمْ فِی الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلَواهَ وَآتَوُا الزَّکَواهَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَللهِ عقِبَهُ الْأُمُورِ»(۵۰۵) فرموده است:
«هذِهِ لآلِ مُحَمَّدٍ، اَلْمَهْدِی وَ أَصْحابِهِ یمَلِّکُهُمُ الله مَشارِقَ الارْضِ وَ مَغارِبِها...»(۵۰۶)؛ «این آیه مربوط به آل محمّد است، مهدی (علیه السلام) و یاران او که خداوند ایشان را مالک و فرمان فرمای سرتاسر زمین می گرداند.»
۳۳۵ - مأمور:
به معنای کسی که به او امر و فرمان داده شده است.
امام زمان (علیه السلام) مأمور ویژه الهی است و فقط از خداوند فرمان می گیرد، نه از هیچ قدرتی، نه از هوی و هوس و غیره....
در مناقب قدیمه ذکر شده که مأمور از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۵۰۷)
از جمله در دعای روز جمعه می خوانیم:
«وَمَأْمُورٌ بِالضِّیافَهِ وَالْإِجارَهِ»؛(۵۰۸)
«تو مأمور به مهمان نوازی و پناه دادن به خلق هستی».
۳۳۶ - مأمول:
لقب دیگر امام زمان (علیه السلام) است، به معنای هر چیزی و هر شخصی که مورد آرزو می باشد.
و «او» کسی است که همه مکاتب و مذاهب در همه زمان ها و مکان ها آرزویش را دارند. لذا امام صادق (علیه السلام) در مورد آن حضرت فرموده است:
«ثُمَّ یقُومُ الْقائِمُ الْمَأْمُولُ وَالإمامُ الْمَجْهُولُ»؛(۵۰۹)
«پس آن گاه امام قائم مأمول قیام می کند آن امامی که مجهول است».
و در زیارت آن حضرت وارد شده است:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ اَیهَا الْمُقَدَّمُ الْمَأْمُولُ».(۵۱۰)
«سلام بر تو ای امام که مقدم بر همه عالم و آرزوی تمام خلایق هستی.»
۳۳۷ - مأمون:
یعنی کسی که در حفظ و امان است. و امام زمان (علیه السلام) در حفظ و امان خدا و ذخیره خداست؛ لذا آن حضرت را با این عنوان در زیارت آل یاسین زیارت می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الْإِمامُ الْمَأْمُونُ»؛(۵۱۱)
«سلام بر تو ای آقایی که امام در حفظ خدایی».
۳۳۸ - مَبانی الآیات:
کتاب دلائل الامامه با این عنوان امام زمان (علیه السلام) را توصیف نموده است.(۵۱۲)
۳۳۹ - مُبْدِءُ الآیات:
به معنای سرآغاز آیات و نشانه ها و ظاهر کننده آیات خداوند و یا محل بروز و ظهور آیات الهیه است که در هدایه الکبری از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است.(۵۱۳)
چون در روز ظهور آن حضرت، تمام آیات و معجزات الهی که به دست پیامبران گذشته ظاهر شده بود، توسط آن جناب ظاهر می شود.
۳۴۰ - مُبطِل:
به معنای باطل کننده و محو و نابود کننده می باشد و امام زمان (علیه السلام) نابود کننده هر باطلی است.
امام باقر (علیه السلام) در مورد آیه «لِیحِقَّ الْحَقَّ وَیبْطِلَ الْباطِلَ وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُونَ»(۵۱۴) فرموده است:
«... وَ أَمّا قَوْلُهُ وَ یبْطِل الْباطِلَ یعْنِی الْقائِمَ فَاِذا قامَ أَبْطَلَ باطِلَ بَنِی أُمَیه»(۵۱۵)
«... و امّا فرمایش خدا که باطل را براندازد، مراد این است که چون حضرت قائم (علیه السلام) قیام کند، باطل بنی امیه را براندازد.»
این هم قسمتی از زیارت آن حضرت:
«أَشْهَدُ أَنَّکَ... وَمُحَقِّقُ کُلِّ حَقٍّ، وَمُبْطِلُ کُلِّ باطِلٍ»؛(۵۱۶)
«شهادت می دهم ای آقای من که تو هر حقی را اثبات و هر باطلی را نابود خواهی کرد».
۳۴۱ - مُبْلَی السَّرائر:
یعنی کسی که اسرار و آنچه را که افراد در سینه خود یا هر جای دیگر پنهان کرده باشند، آشکار می نماید.
این عنوان در کتاب هدایه الکبری و دلائل الامامه از القاب امام زمان (علیه السلام) دانسته شده است.(۵۱۷)
۳۴۲ - مُبید:
به معنای نابود کننده و از القاب امام زمان (علیه السلام) است، که در دعای ندبه از زبان امام معصوم (علیه السلام) می گوییم:
«أَینَ مُبِیدُ أَهْلِ الْفُسُوقِ وَالْعِصْیانِ وَالطُّغْیانِ»؛(۵۱۸)
«کجاست آن که اهل فسق و گناه و طغیان و ظلم را هلاک و نابود می کند».
۳۴۳ - مُبِیر الکافرین:
در طول تاریخ، اهل کفر و شرک، ظلم های فراوانی بر انسان ها؛ خصوصاً اهل ایمان انجام داده اند که طبق عدالت خدا و قانون طبیعت و مکافات عمل در همین دنیا، باید روزی تاوان اعمال زشت خود را پس بدهند؛ اگرچه مجازات اصلی آنان در آتش جهنم خواهد بود، و آن که به وعده خدا می آید و ظالمان و کافران را نابود می کند، مهدی موعود و امام زمان (علیه السلام) است؛ لذا در زیارت مربوط به ایشان می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلی مُحْیی الْمُؤْمِنِینَ وَمُبِیرِ الْکافِرِینَ»؛(۵۱۹)
«سلام بر آن آقایی که احیاکننده مؤمنان و هلاک کننده کافران است».
۳۴۴ - مُترقّب:
به معنای مراقب و منتظر است که از اوصاف امام زمان (علیه السلام) می باشد. و در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَظْهِرْ کَلِمَتَکَ التّآمَّهَ، وَمُغَیبَکَ فِی أَرْضِکَ الْخآئِفَ الْمُتَرَقِّبَ»؛(۵۲۰)
«خدایا بر محمّد و آل او درود فرست و آن کلمه تامه ات را که از ترس و بیم دشمنان در پرده غیبت قرار دادی ظاهر نما».
۳۴۵ - مُجاب:
به معنای کسی که دعایش مستجاب است می باشد و از القاب امام زمان (علیه السلام) است؛ چنان که آیه شریفه «أَمَّن یجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعاهُ وَیکْشِفُ السُّوءَ»(۵۲۱) نیز به آن جناب تفسیر شده است.
لذا به ایشان سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الْمُنْتَظرُ الْمُجابُ إِذا دُعا»؛(۵۲۲)
«سلام بر تو ای آقای منتظری که هرگاه دعا کند به اجابت می رسد».
در کتاب دلائل الامامه نیز امام زمان (علیه السلام) به مجاب توصیف شده است.(۵۲۳)
۳۴۶ - مجازی بِالاَعمال:
هدایه الکبری گفته است این عنوان را از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده اند،(۵۲۴) به معنای کسی که جزای نیک و بد اعمال هر کسی را می دهد و به علم خود و باطن افراد حکم می کند. در کتاب دلائل الامامه نیز آمده است.(۵۲۵)
۳۴۷ - مجاهد:
به معنای تلاشگر از القاب امام زمان (علیه السلام) گفته شده است و در دعا برای امام زمان (علیه السلام) می گوییم:
«اَللَّهُمَّ ادْفَعْ عَنْ وَلِیکَ... الْجَحْجاحِ الْمُجاهِدِ...»؛(۵۲۶)
«خدایا هر نوع بلا را از ولی خود دفع فرما... آن که بزرگ ترین مجاهد در راه تو است».
۳۴۸ - مجتهد:
به معنای تلاشگر و کوشا، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده است که در دعای مخصوص آمده است:
«وَشاهِدِکَ عَلی عِبادِکَ، الْجَحْجاحِ الْمُجاهِدِ، الْمُجْتَهِدِ عَبْدِکَ الْعآئِذِ بِکَ»؛(۵۲۷)
«آن امامی که شاهد و گواه تو بر بندگانت می باشد، آن مجاهد بزرگ و مجتهد که عبد تو و در پناه تو است».
و در جای دیگر چنین است:
«فَإِنَّهُ الْهادِی الْمَهْدِی وَالْقآئِمُ الْمُهْتَدِی، وَالطّاهِرُ التَّقِی الزَّکِی النَّقِی الرَّضِی الْمَرْضِی، الصّابِرُ الشَّکُورُ الْمُجْتَهِدُ»؛(۵۲۸)
«که او هادی و مهدی است، آن قائم مهتدی، و آن که پاک و پاکیزه و خالص و مورد رضایت و پسندیده است، آن صابر شکرگزار و کوشا».
۳۴۹ - مُجدّد:
او مجدّد مذهب و شریعت پیامبر اسلام (صلی الله علیه وآله) است؛ چنان که در کتاب شریف غیبت نعمانی آمده است:
«... اِنَّ الله قَدْ اَبْعَدَ مِنْ هذِهِ حالِهِ عَنْ أَنْ یکونَ القائِمُ للهِ بِحَقِّهِ وَالنّاصِرِ لِدِینِهِ وَالْخَلِیفَهِ فِی أَرْضِهِ وَالْمُجَدِّدِ شَرِیعَهِ نَبِیهِ (صلی الله علیه وآله)».(۵۲۹)
۳۵۰ - مُجَلَّی الظّلمه:
به معنای روشنی بخش تاریکی ها و ظلمت هاست، و از القاب مهدی موعود (علیه السلام) می باشد.
چنان که در دعای بعد از زیارت آل یاسین می گوییم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَمُجَلِّی الظُّلْمَهِ»؛(۵۳۰)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت در زمین... همان که روشنی بخش ظلمت عالم است».
۳۵۱ - مُجَلَّی العَمی:
آن که کور و نابینا را بینا می کند؛ یعنی امام زمان (علیه السلام) و «او» می آید و تمام کسانی که چشم بر حقایق بسته اند و کفر و جهل و نفاق آنان را کور کرده است، بینا می کند.
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَمُجَلِّی الْعَمی؛(۵۳۱)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت در زمین، همان که بینا کننده نابینایان جهل و کفر است».
۳۵۲ - مجهول:
یعنی ناشناس و ناشناخته شده، از القاب امام زمان (علیه السلام)، امامی که در بین مردم است امّا کسی او را نمی شناسد.
امام صادق (علیه السلام) در مورد آن حضرت فرموده است:
«... ثمَّ یقومُ القائِمُ الْمَأْمُولُ وَالإمامُ الْمَجْهُول».(۵۳۲)
«آن گاه آن قیام کننده آرزو شده قیام می کند، و آن امام ناشناس!»
۳۵۳ - مُحْتَجَب:
به معنای مستور و در حجاب رفته می باشد که از القاب مهدی موعود (علیه السلام) گفته شده است.
«او» باید مستور باشد تا محفوظ باشد و در روزی که خداوند اراده فرماید ظهور نماید.
و این است قسمتی از زیارت پدر آن جناب:
«... الْمُحْتَجَبِ عَنْ أَعْینِ الظّالِمِینَ»؛(۵۳۳)
به امام عسکری (علیه السلام) سلام می کنیم و عرض می کنیم:
شما پدر آن بزرگواری هستید که خداوند او را از چشم ظالمان مخفی کرده است.
۳۵۴ - محسن:
محسن از اسمای حسنای الهی است و امام زمان (علیه السلام) نیز که مظهر اسم اعظم خداست ملقّب به محسن گردیده است، چنان که از کتاب هدایه الکبری نقل شده است.(۵۳۴)
۳۵۵ - محفوظ:
امام صادق (علیه السلام) فرموده است:
«إنَّ صاحِبَ هذَا الأمْرِ مَحْفُوظٌ لَهُ لَوْ ذَهَبَ النّاسُ جَمِیعاً اَتَی الله لَهُ بِاَصْحابِهِ وَهُمُ الَّذِینَ قالَ لَهُمْ الله عَزَّوَجَلَّ: «فَإِن یکْفُرْ بِهَا هَؤُلآءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِهَا قَوْماً لَیسُوا بِهَا بِکافِرِینَ»»؛(۵۳۵)
«همانا صاحب این امر را خداوند حفظ می فرماید، اگر همه مردم هم بروند خداوند او را به همراه اصحابش می آورد و آنان همان کسانی اند که خداوند در حقّ ایشان فرموده است: و اگر نسبت به آن کفر ورزند، (آیین حقّ زمین نمی ماند؛ زیرا) کسان دیگری را نگاهبان آن می سازیم که نسبت به آن، کافر نیستند».(۵۳۶)
و در قسمتی از زیارت مربوطه آمده است:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا مَحْفُوظاً بِاللهِ»(۵۳۷)
«سلام بر تو ای آقایی که محفوظ به حفظ الهی هستی.»
۳۵۶ - محقّق:
یعنی احقاق کننده و زنده کننده و اثبات کننده حقّ و از القاب امام زمان (علیه السلام) که برایش چنین شهادت می دهیم:
«أَشْهَدُ أَنَّکَ... وَمُحَقِّقُ کُلِّ حَقٍّ»؛(۵۳۸)
«شهادت می دهم ای آقای من که اثبات کننده حقوق تو هستی».
و این نیز قسمتی از زیارت سرّ من رأی است:
«وَأَتَوَسَّلُ إِلَیکَ یا رَبِّ بِإِمامِنا وَمُحَقِّقِ زَمانِنا، اَلْیوْمِ الْمَوْعُودِ»؛(۵۳۹)
«ای پروردگار من! به سوی تو تقرب می جویم به وسیله امام و پیشوای ما که نگهبان حقّ است در زمان ما تا روز موعود که ظهورش فرا رسد،...».
۳۵۷ - محمّد:
به معنای بسیار ستوده و پسندیده، اصلی ترین نام امام زمان (علیه السلام) است.
اخبار و روایات از طریق شیعه و سنی نقل شده است که پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) فرموده اند: «اِسْمُهُ إسْمِی»؛ مهدی همنام من است.
در خبر لوح که جابر بن عبد الله انصاری آن را نزد صدیقه طاهره (علیها السلام) دید که خداوند برای رسول خدا(صلی الله علیه وآله) هدیه آورده بود، نام امام زمان (علیه السلام) این گونه ثبت شده بود:
«اَبُوالْقاسِم مُحَمَّد بْن حَسَن، هُوَ حُجَّهُ الله القآئِمِ...»(۵۴۰)
در دعای عهد نیز می خوانیم: «اَلْمُسَمّی بِاسْمِ رَسُولِکَ...»؛
«همان که به اسم رسول تو نامیده شده است...».
و امام صادق (علیه السلام) فرموده است:
خلف صالح از فرزندان من است، اوست مهدی، اسم او محمّد و کنیه اش ابوالقاسم و در آخرالزمان قیام می کند.(۵۴۱)
در مورد حرمت یا جواز ذکر اسم اصلی امام زمان (علیه السلام)، اخبار و اقوال متعددی وجود دارد که جهت اطلاع از آن ها و استدلال بر هر کدام می توانید به کتب مفصل مراجعه نمایید؛ از جمله: مکیال المکارم، نجم الثاقب که به فارسی می باشد و کتب حدیثی معتبر دیگر.
۳۵۸ - محیط:
پیامبر اعظم (صلی الله علیه وآله) در خطبه غدیر خود آنجا که به توصیف امام زمان (علیه السلام) و آخرین وصی خویش می پردازد، می فرماید:
«أَلا إنَّهُ وارِثُ کُلِّ عِلْمٍ وَالمُحِیطُ بِهِ»؛(۵۴۲)
«آگاه باشید که تمام علوم به او ارث می رسد و او بر همه آن احاطه دارد».
۳۵۹ - مُحیی:
یعنی احیاگر و زندگی بخش، از القاب امام زمان (علیه السلام) است، «او» که وارث تمام انبیاست، تمام خوبی ها و معجزات پیامبران و امامان را نیز داراست. اگر حضرت عیسی (علیه السلام) به اذن خداوند مرده را زنده می کرد، «او» هم هر مرده ای را به اذن خداوند زنده می کند، مردگان جسمانی، مردگان روحی. افراد مرده را زنده می کند، دین مرده را زنده می کند، سنّت های مرده را زنده می کند،....
امام باقر (علیه السلام) در مورد آیه شریفه «اعْلَمُوا أَنَّ الله یحْی الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها قَدْ بَینّا لَکُمُ الْأَیاتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ»(۵۴۳) فرموده است:
«یحْییهَا الله عَزَّ وَ جَلَّ بِالْقائِمِ بَعْدَ مَوْتِها یعْنِی بِمَوْتِها کُفْرَ أَهْلِها وَ الْکافِرُ مَیتٌ.»(۵۴۴)؛ «خداوند متعال زمین را بعد از مرگش به وسیله قائم (علیه السلام) زنده خواهد کرد و مقصود از موت زمین کفر اهل زمین است و کافر نیز حکم میت را دارد.»
لذا باید هر لحظه منتظر او باشیم و از خدا بخواهیم تا زودتر ظهور نماید:
«أَینَ مُحْیی مَعالِمِ الدِّینِ وَأَهْلِهِ»؛(۵۴۵)
«کجاست آن که با قدرت الهی، پرچم دین و اهل ایمان را زنده می کند».
بعد در روز جمعه دعا می کنیم که هر کجا هست:
«اَللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلی وَلِیکَ الْمُحْیی سُنَّتَکَ الْقآئِمِ بِأَمْرِکَ»؛(۵۴۶)
«خدایا درود فرست بر ولی خودت آن که سنّت تو را احیاء خواهد نمود و به فرمان تو قیام خواهد کرد».
این هم سلام ما به آن احیاگر عالم:
«السَّلامُ عَلَیکَ یا مُحْیی مَعالِمِ الدِّینِ وَاَهْلِهِ»؛(۵۴۷)
«سلام بر تو ای احیاگر پرچم و نشانه های دین و اهل آن».
۳۶۰ - مُحیی المؤمنین:
مهدی موعود و منجی عالم بشریت روزی می آید و اهل ایمان را که به ناحقّ به استضعاف و ذلّت و مظلومیت گرفتار کرده اند، نجات خواهد داد و آن را حیاتی دوباره می دهد. پس «او» زنده کننده ایمان و اهل ایمان است. لذا در زیارت ایشان می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلی مُحْیی الْمُؤْمِنِینَ وَمُبِیرِ الْکافِرِینَ»؛(۵۴۸)
«سلام بر آن آقایی که احیاکننده مؤمنان و هلاک کننده کافران است».
۳۶۱ - مُخبِر:
از کتاب مناقب و هدایه الکبری، همچنین دلائل الامامه نقل شده که مخبر از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۵۴۹)
۳۶۲ - مَخزون:
به معنای گنجینه و ذخیره و پنهان شده می باشد که با آن امام زمان (علیه السلام) را توصیف می کنند؛ چنان که این عبارت وارد شده است:
«السَّلامُ عَلَیکَ یا مَخْزُوناً فِی قُدْرَهِ الله نُورُ سَمْعِهِ وَبَصَرِهِ...»(۵۵۰).
۳۶۳ - مِدار الدَّهر:
به معنای محور و مدار روزگار و عالم است و از القاب امام زمان (علیه السلام) که در اعمال نیمه شعبان و دعا برای امام زمان (علیه السلام) می گوییم:
«اَللّهُمّ بِحَقِّ لَیلَتِنا وَمَوْلُودِها... سَیفُ الله الَّذِی لاینْبُو وَنُورُهُ الَّذِی لایخْبُو وَذُو الْحِلْمِ الَّذِی لایصْبُو مِدارُ الدَّهْرِ وَنَوامِیسُ الْعَصْرِ»؛(۵۵۱)
«خدایا به حقّ این شب ما و مولود آن... آن شمشیر خدایی که کند نمی شود و آن نور الهی که خاموش نمی گردد، و آن بردباری که شکیبایی اش را از دست نمی دهد و آن صبوری که بردباری اش را از دست نمی دهد او که محور روزگار و ناموس عصر و زمان است.».
۳۶۴ - مدبّر:
به معنای تدبیر کننده امور است و از کتاب مناقب نقل شده که از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد.(۵۵۲)
۳۶۵ - مُدَّخر:
یعنی ذخیره شده، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است، چون خدا «او» را ذخیره کرده و پنهان داشته است تا روزی که اراده فرماید ظاهرش نماید و احکام کامل الهی را جاری کند.
و در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الْمُدَّخَرُ لِتَجْدِیدِ الْفَرائِضِ وَالسُّنَنِ»؛(۵۵۳)
«سلام بر تو ای آن که برای زنده کردن فرایض و سنت ها ذخیره شده ای».
و در جای دیگر:
«السَّلامُ عَلَی الْمُدَّخَرِ لِکَرامَهِ أَوْلِیآءِ الله وَبَوارِ أَعْدآئِهِ»؛(۵۵۴)
«سلام بر آن آقایی که خداوند او را برای عزت و بزرگواری دوستانش و ذلیل و خوار کردن دشمنانش ذخیره کرده است.»
این هم فرازی از دعای ندبه:
«أَینَ الْمُدَّخَرُ لِتَجْدِیدِ الْفَرآئِضِ وَالسُّنَنِ»؛(۵۵۵)
«کجاست آن بزرگواری که ذخیره شده است تا بیاید و فرایض و سنت های فراموش شده اسلام را تجدید کند».
۳۶۶ - مُدیل:
در کتاب دلائل الامامه، امام زمان (علیه السلام) را با المدیل توصیف نموده است.(۵۵۶)
۳۶۷ - مُذکّر:
به معنای تذکّر دهنده و یادآوری کننده است، چنان که در زیارت امام غایب (علیه السلام) و در دعای ندبه می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ وَنَحْنُ عَبِیدُکَ التّآئِقُونَ إِلی وَلِیکَ الْمُذَکِّرِ بِکَ وَبِنَبِیکَ»؛(۵۵۷)
«خدایا ما همه بندگان تو مشتاق ظهور ولی تو هستیم، او که یادآور تو و رسول توست».
۳۶۸ - مُذلّ:
به معنای خوارکننده و ذلیل کننده می باشد و از نام های امام زمان (علیه السلام) است، «او» خوارکننده ستمگران و ظالمان طول تاریخ است، «او» خواهد آمد و معاندان و گردنکشان را سر جایشان خواهد نشاند، به همین علت از ابتدایی که نام مهدی موعود (علیه السلام) به زبان ها آمد و خبر آمدنش منتشر گشت، مخالفان همواره منتظر بودند که نگذارند متولد شود، بعد که متولد شد می خواستند او را از سر راه بردارند، امّا نتوانستند و اینک نیز هر روز به نحوی مشغول توطئه و شبهه افکنی و مخالفت با آن وجود نازنین هستند، امّا «یرِیدُونَ لِیطْفِوا نُورَ الله بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ کَرِهَ الْکافِرُونَ»؛(۵۵۸) «آنان می خواهند نور خدا را با دهان خود خاموش سازند؛ ولی خدا نور خود را کامل می کند هر چند کافران خوش نداشته باشند!»
و ما امید داریم که روزی می آید و همه آنان را خوار و ذلیل می کند پس بر او سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا مُذِلَّ الْکافِرِینَ الْمُتَکَبِّرِینَ الظّالِمِینَ»؛(۵۵۹)
«سلام بر تو ای آقایی که کافران و متکبران و ظالمان را خوار خواهی کرد».
و هر صبح جمعه نیز ندبه می کنیم و به دنبالش می گردیم:
«أَینَ مُعِزُّ الْأَوْلِیآءِ وَمُذِلُّ الْأَعْدآءِ»؛(۵۶۰)
«کجاست آن که دوستان را عزیز و دشمنان را خوار و ذلیل می کند؟»
۳۶۹ - مُرابط:
به معنای مرزبان و نگهبان می باشد و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است چرا که او از مرزهای عقیدتی مکتب و از مرزهای دین اسلام و کشورهای اسلامی محافظت می کند.
۳۷۰ - مُرتَجی:
به معنای کسی که امید و آرزوها به اوست، و این کسی جز امام زمان (علیه السلام) نیست؛ چنان که در دعای ندبه آمده است:
«أَینَ الْمُرْتَجی لِإِزالَهِ الْجَوْرِ وَالْعُدْوانِ»؛(۵۶۱)
«کجاست آن منتقمی که امیدواریم بیاید و اساس ظلم و عدوان را از عالم براندازد و بساط عدل و احسان را بگستراند».
پس سلام بر چنین امامی باد:
«السَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الإمامُ الْمُرْتَجی لاِزالَهِ الْجَوْرِ وَالْعُدْوانِ»؛(۵۶۲)
«سلام بر تو ای آقا و امامی که همه آرزو دارند که ظلم و جور و ستم را براندازی».
۳۷۱ - مُرْتَقِب:
یعنی مراقب و منتظر، از القاب امام زمان (علیه السلام) است، چون همواره مراقب و منتظر فرمان الهی است.
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... الْمُرْتَقِبِ الْخآئِفِ»؛(۵۶۳)
«خدایا درود فرست به حجت خودت در زمین، همان که از جور دشمنان دائماً نگران مراقب و منتظر فرمان توست».
و ما عاجزانه از خدا می خواهیم که ظهور او را نزدیک فرماید:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَظْهِرْ کَلِمَتَکَ التّآمَّهَ، وَمُغَیبَکَ فِی أَرْضِکَ الْخآئِفَ الْمُتَرَقِّبَ»؛(۵۶۴)
«خدایا بر محمّد و آل او درود فرست و آن کلمه تامه ات را که از ترس و بیم دشمنان در پرده غیبت قرار دادی ظاهر نما».
۳۷۲ - مرشد:
به معنای رهبر و راهنما از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است، چون «او» راهنما و مرشد همه خلایق است، از همه مکاتب و مذاهب، و از همه بلاد و سرزمین ها.
و ما به چنین رهبر و مرشدی که با تأیید الهی خلق را به خدا راهنمایی می کند راضی هستیم:
«رَضِیتُکَ یا مَوْلای إِماماً وَهادِیاً، وَوَلِیاً وَمُرْشِداً، لا أَبْتَغِی بِکَ بَدَلاً...»؛(۵۶۵)
«ای مولا و آقای من! من به امامت و هدایت تو راضی ام، که تو ولی و رهبر و امام و راهنمای من باشی، و به جای تو احدی را انتخاب نخواهم کرد».
۳۷۳ - مَرضی:
به معنای پسندیده و خشنود و برگزیده خدا که از نام های امام زمان (علیه السلام) است، و در دعای استغاثه به آن حضرت می گوییم:
«...وَالْحُجَّهِ الْقآئِمِ الْمَهْدِی، الْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ الْمَرْضِی...»؛(۵۶۶)
«... آن حجت خدا که به فرمان او قیام نموده، مردم را هدایت خواهد کرد، همان امامی که همه منتظر اویند و مورد رضایت و گزینش خداست».
۳۷۴ - مُزِیل الهَمّ:
به معنای برطرف کننده و محو کننده همّ و غمّ است که از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد، «او» که آرام بخش دل داغدیدگان است.
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَمُفَرِّجِ الْکَرْبِ وَمُزِیلِ الْهَمِّ»؛(۵۶۷)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت در زمین...، آن آقایی که گشایش بخش دل ها و برطرف کننده همّ و غمّ است».
۳۷۵ - مُستأصِل:
یعنی کسی که چیزی را از اصل و ریشه قطع می کند، این از القاب امام زمان (علیه السلام) است چون ریشه هر گونه گمراهی و کفر و شرک را قطع خواهد کرد و چنین است قسمتی از دعای ندبه:
«أَینَ مُسْتَأْصِلُ أَهْلِ الْعِنادِ وَالتَّضْلِیلِ وَالْإِلْحادِ؟»؛
«کجاست آن آقایی که ریشه اهل عناد و گمراهی و الحاد را از بیخ و بن قطع خواهد کرد».(۵۶۸)
۳۷۶ - مستتر:
این عنوان نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد؛ چنان که امام صادق (علیه السلام) در تفسیر آیه شریفه «فَإِذَا نُقِرَ فِی النّاقُورِ»(۵۶۹) فرموده است:
امام صادق (علیه السلام) در تفسیر آیه شریفه «فَإِذَا نُقِرَ فِی النّاقُورِ»(۵۷۰) فرمود:
«إنَّ مِنّا إِماماً مُظَفَّراً مُسْتَتِراً فَإذا اَرادَ الله عَزَّ ذِکْرُهُ اِظْهارَ اَمْرِهِ نَکَتَ فِی قَلْبِهِ نُکْتَهً فَظَهَرَ فَقامَ بِاَمْرِ الله تَبارَکَ وَتَعالی؛(۵۷۱)
«همانا از ماست امام مظفری که مستتر است، پس آن گاه که خداوند عزیز ظهور امرش را اراده کند، در قلب او خطور می کند، پس ظاهر می شود و به فرمان خداوند متعال قیام می نماید».
امام صادق (علیه السلام) همچنین در مورد فضیلت انتظار و عبادت در زمانی که امام حضور ندارد فرمود:
«... وَکَذلِکَ عِبادَتُکُمْ فِی السِّرِّ مَعَ إمامِکُمُ الْمُستَتَرِ فِی دَوْلَهِ الْباطِلِ اَفْضَل لِخَوْفِکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ».(۵۷۲)
و در یکی از زیارات جامعه نیز خوانده می شود:
«... وَالْحُجَّهِ بْنِ الْحَسَنِ صاحِبِ الْعَصْرِ وَالزَّمانِ وَصِی الاَوْصِیاءِ وَبَقِیهِ الاَنْبِیاءِ المُسْتَتَرِ عَنْ خَلْقِکَ وَالْمُؤَمَّلِ لاِظْهارِ حَقِّکَ الْمَهْدِی الْمُنْتَظَرِ»؛(۵۷۳)
«... و حجت خدا فرزند امام عسکری (علیه السلام)، صاحب عصر و زمان، جانشین اوصیا و باقی مانده انبیا، او که از خلق پنهان است و همه آرزو دارند و منتظرند که برای اظهار حقّ بیاید، او مهدی منتظر است».
۳۷۷ - مُستَنصر:
به معنای انتقام خواه و انتقام گیرنده است که بر اساس روایات، از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) می باشد.
در حدیثی امام باقر (علیه السلام) در مورد آیه «وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِکَ ما عَلَیهِم مِّن سَبِیلٍ»(۵۷۴) فرمود: مراد از این آیه قائم (علیه السلام) و یاران او هستند؛ آن گاه که آن حضرت قیام کند، با یارانش از بنی امیه و تکذیب کنندگان و دشمنان انتقام می گیرد.(۵۷۵)
۳۷۸ - مُسْتَودع الحکمه:
یعنی کسی که حکمت در نزد او به ودیعت و امانت گذاشته شده، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده و در دعا و زیارت مربوط به ایشان آمده است:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا وارِثَ عِلْمِ النَّبِیینَ وَ مُسْتَوْدِعَ حِکَمِ الْوَصِیینَ»؛(۵۷۶)
«سلام بر تو ای وارث علم پیامبران و نگه دارنده حکمت های جانشینان!»
۳۷۹ - مستور:
به معنای پنهان و مخفی شده و از نام های امام زمان (علیه السلام) است.
از امام صادق (علیه السلام) سؤال شد:
«فَکَیفَ ینْتَفِعُ النّاسُ بِالحُجَّهِ الْغائِبِ الْمَسْتُور؟ قالَ: کَما ینْتَفِعُونَ بِالشَّمْسِ إذا سَتَرَهَا السَّحابُ»؛(۵۷۷)
«چگونه مردم از امامی که غایب و مخفی است، استفاده می برند؟
فرمود: همان طور که از خورشید استفاده می کنند، آن گاه که ابر او را پوشانده باشد».
این فرمایش از خود امام زمان (علیه السلام) نیز نقل شده است.
۳۸۰ - مَسیح الزّمان:
از کتاب ذخیره و تذکره الائمه نقل شده که در کتاب فرنگیان، به امام زمان (علیه السلام) نام مسیح الزمان داده اند.(۵۷۸)
۳۸۱ - مُشْتَهَر:
به معنای شهرت یافته و مشهور شده است، و چه کسی از او مشهورتر و چه کسی آوازه اش از او جهانی تر، نام «او» جهانی ترین نام است؛ اگرچه هر ملتی و هر مذهبی او را به نامی صدا می زنند، ولی همه در هدف متحدند، به این که همه منتظر عدل اویند؛ عدل او مشهور تمام انسان هاست؛ چنان که در زیارت صاحب الامر سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَی الْقآئِمِ الْمُنْتَظَرِ وَالْعَدْلِ الْمُشْتَهَرِ»؛(۵۷۹)
«سلام بر آن امامی که همه خلق منتظر اویند و سلام بر آن سلطان عادلی که مشهور همه عالمیان است».
و در زیارت دیگر می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ اَیهَا الإمامُ الْمُنْتَظَرُ وَالْحَقُّ الْمُشْتَهَر»؛(۵۸۰)
«سلام بر تو ای آقایی که امام منتظر و حقّ مشهور هستی».
۳۸۲ - مشهود:
یکی دیگر از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) مشهود است، چنان که در این دعا آمده است:
«وَأَتَوَسَّلُ إِلَیکَ یا رَبِّ بِإِمامِنا وَمُحَقِّقِ زَمانِنا، اَلْیوْمِ الْمَوْعُودِ وَالشّاهِدِ الْمَشْهُودِ...»؛(۵۸۱)
«خدایا به تو متوسل می شوم به وسیله امام و پیشوای ما که نگهبان حقّ است در زمان ما تا روز موعود که ظهورش فرا رسد، او که شاهد خلق و مشهود اهل عالم است...».
۳۸۳ - مُشید:
به معنای محکم، استوار شده و استوار کننده است.
۳۸۴ - مِصْباحُ الدُّجی:
یعنی چراغ فروزان و روشنی بخش تاریکی، از اوصاف مشترک امامان معصوم (علیهم السلام) است.
پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) از شب معراج می فرماید امامان و جانشینان من را چنین معرفی کردند:
«... یا مُحَمَّد فَهؤُلاءِ الأئِمَّهُ مِنْ بَعْدِکَ اَعْلامُ الْهُدی وَمِصْباحُ الدُّجی؛(۵۸۲)
«... ای محمّد! اینان امامان بعد از تو هستند، که پرچم های هدایت و چراغ های نورانی می باشند و یکی از آنان که اینک زنده است امام زمان (علیه السلام) است».
۳۸۵ - مصباح شدید الضّیاء:
چراغی که روشنایی و نور زیادی دارد، از دیگر القاب امام زمان (علیه السلام) است.
روایتی در کتاب مشارق انوار الیقین است که نجم الثاقب نقل کرده:
آن گاه که قائم (علیه السلام) به دنیا آمد، امام عسکری (علیه السلام) به وی فرمود:
سخن بگو ای حجه الله و بقیه انبیا و خاتم اوصیا و صاحب کره بیضا و مصباح از دریای عمیق شدید الضیاء....(۵۸۳)
۳۸۶ - مَصْدَرُ الأُمور:
سرچشمه و سررشته دار امور، و این لقبی است که امیرالمؤمنین (علیه السلام) آن را به امام زمان (علیه السلام) عطا فرموده، آنجا که امام علی (علیه السلام) فرمود:
«... مِنّا خاتِمُ الاَئِمَّهِ وَمُنْقِذُ الاُمَّهِ وَغایهُ النُّورِ وَمَصْدَرُ الاُمُورِ»؛(۵۸۴)
«آخرین امام از ماست، نجات دهنده امّت از ماست، نور آخرین از ماست، و آن که همه امور به او بر می گردد از ماست».
۳۸۷ - مُضْطَر:
از امام صادق (علیه السلام) در تفسیر علی بن ابراهیم روایت شده است که در تفسیر آیه شریفه «أَمَّن یجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعاهُ وَیکْشِفُ السُّوءَ وَیجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْأَرْضِ»(۵۸۵) فرموده اند: آیه در شأن قائم نازل شده و قسم به خدا که او مضطر است.(۵۸۶)
لذا در دعای ندبه می گوییم:
«أَینَ الْمُضْطَرُّ الَّذِی یجابُ إِذا دَعی؛(۵۸۷)
«کجاست آن مضطری که هرگاه دعا کند به اجابت می رسد».
۳۸۸ - مُطاع:
به معنای اطاعت شونده که همه مطیع او هستند از القاب امام زمان (علیه السلام) است. آن گاه که «او» ظهور کند، همه تحت فرمانش در خواهند آمد، آنچه در آسمان و زمین است، مگر کافران معاند که آنان را به سزای اعمال خود می رساند.
امام رضا (علیه السلام) فرموده است:
«... وَبَعْدَ الْحَسَنِ ابْنُهُ الحُجَّهُ الْقائِمُ، الْمُنْتَظَرُ فِی غَیبَتِهِ، الْمُطاعُ فِی ظُهُورِهِ»؛(۵۸۸)
«بعد از امام عسکری (علیه السلام) فرزند او حجت قائم امام است، او که در هنگام غیبتش همه در انتظار اویند و آن گاه که ظهور کن همه مطیع او می شوند».
۳۸۹ - مُطَهَّر:
به معنای پاکیزه و پاک شده می باشد. «او» از هر گونه گناه و غفلت و خطا، از هر گونه آلودگی ظاهری و باطنی، پاک و خالص است.
امام صادق (علیه السلام) فرمود:
«... فَإِذا کانَ ذلِکَ فَاَلْزِمُوا اَحْلاسَ بُیوتِکُمْ حَتّی یظْهَرُ الطّاهِرُ بْنُ الطّاهِر الْمُطَهَّرُ ذُو الْغَیبَهِ الشَّرِیدِ الطَّرِیدِ»؛(۵۸۹)
«پس هرگاه چنین شد، در خانه هایتان آماده باشید تا این که آن طاهر فرزند طاهر و او که مطهر است و دارای غیبت، آن تنهای رانده شده ظاهر شود».
۳۹۰ - مُطَهِّر الأرض:
«او» هم خود پاک و طاهر است و هم سرتاسر زمین را تطهیر خواهد کرد، از هرچه کفر و ظلم و ستم و شرک و بی عدالتی پاک خواهد نمود و جهان سراسر عدل و داد خواهد شد.
و چنین است قسمتی از دعای استغاثه:
«سَلامُ الله الْکامِلُ،... عَلی حُجَّهِ الله وَوَلِیهِ... وَ مُطَهِّرِ الارْضِ»؛(۵۹۰)
«سلام و درود کامل و تمام خداوند متعال بر حجت و ولی خودش که زمین را از هر گونه ظلم و طغیان پاک می کند.».
۳۹۱ - مُظَفَّر:
امام صادق (علیه السلام) در تفسیر آیه شریفه «فَإِذَا نُقِرَ فِی النّاقُورِ»(۵۹۱) فرمود:
«إنَّ مِنّا إِماماً مُظَفَّراً مُسْتَتِراً فَإذا اَرادَ الله عَزَّ ذِکْرُهُ اِظْهارَ اَمْرِهِ نَکَتَ فِی قَلْبِهِ نُکْتَهً فَظَهَرَ فَقامَ بِاَمْرِ الله تَبارَکَ وَتَعالی؛(۵۹۲)
«همانا از ماست امام مظفری که مستتر است، پس آن گاه که خداوند عزیز ظهور امرش را اراده کند، در قلب او خطور می کند، پس ظاهر می شود و به فرمان خداوند متعال قیام می نماید».
۳۹۲ - مُظَفَّر بِالسَّعاده:
این از توصیفاتی است که در زیارت سرّ من رأی برای امام زمان (علیه السلام) گفته شده است:
«وَأَتَوَسَّلُ إِلَیکَ یا رَبِّ بِإِمامِنا... وَالْمُظَفَّرِ بِالسَّعادَهِ»؛(۵۹۳)
«خدایا برای تقرب به تو به امام زمان توسل می جویم... او که پیروز و مظفر به سعادت مطلق است».
۳۹۳ - مَظلوم:
مظلوم از القاب امام زمان (علیه السلام) است؛ چنان که امام باقر (علیه السلام) در تأویل آیه شریفه «أُذِنَ لِلَّذِینَ یقتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ الله عَلَی نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ»(۵۹۴) فرموده اند: «فِی الْقائِمِ وَ أَصْحابِهِ؛ این آیه در مورد حضرت قائم (علیه السلام) و یاران وی نازل شده است.»
۳۹۴ - مُظْهِرُ الایمان:
از القاب امام زمان (علیه السلام) و به معنای کسی که ایمان و دیانت و خداپرستی را که فراموش و مخدوش شده است، اظهار و ابراز می نماید، چنان که در دعای استغاثه فرموده اند بگوییم:
«سَلامُ الله الْکامِلُ التّآمُّ الشّامِلُ الْعآمُّ، وَصَلَواتُهُ الدّآئِمَهُ، وَبَرَکاتُهُ الْقآئِمَهُ التّآمَّهُ، عَلی حُجَّهِ الله وَوَلِیهِ... صاحِبِ الزَّمانِ، وَمُظْهِرِ الْإِیمانِ»؛(۵۹۵)
«سلام و درود کامل و تمام خداوند متعال و برکات پیوسته و همیشگی او بر حجت و ولی خودش صاحب زمان که ایمان را آشکار خواهد کرد».
۳۹۵ - مُظْهِرُ الحقّ:
به معنای ابراز و اظهار کننده حقّ و حقیقت است که از اوصاف امام زمان (علیه السلام) گفته شده است:
«یخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ کَلِمَهُ الْحَقِّ وَلِسانُ الصِّدْقِ وَمُظْهِرُ الْحَقِّ، حُجَهُ الله عَلَی بَرِیتِهِ، لَهُ غَیبَهٌ طَوِیلَهٌ، یظْهَرُ الله تَعالی بِهِ الاسْلامَ وَاَهْلَهُ وَیخْسِفُ بِهِ الکُفْرَ وَاَهْلَهُ»؛(۵۹۶)
«کلمه حق و لسان صدق و اظهار کننده حقّ از امام عسکری (علیه السلام) به دنیا خواهد آمد، او که حجت خداوند بر خلایق است و غیبتی طولانی خواهد داشت. خداوند متعال به وسیله او اسلام و مسلمانان را ظاهر و غالب می کند و کفر و کافران را نابود خواهد کرد».
۳۹۶ - مُظْهِر الْفَضائح:
یعنی کسی که خلاف ها و رذالت ها و گناهکاران را افشا می کند و آنان را به سزای اعمالشان می رساند.
از کتاب مناقب و هدایه الکبری و دلائل الامامه نقل شده است که مظهر الفضایح از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است.(۵۹۷)
۳۹۷ - مَعاذ:
به معنای پناه دهنده و پناهگاه است و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) می باشد، چون «او» پناه دوستان و شیعیان خود و هر کسی است که به ایشان پناهنده شود.
و در دعای ندبه می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ وَنَحْنُ عَبِیدُکَ التّآئِقُونَ إِلی وَلِیکَ الْمُذَکِّرِ بِکَ وَبِنَبِیکَ خَلَقْتَهُ لَنا عِصْمَهً وَ مَلاذاً وَ أَقَمْتَهُ لَنا قِواماً وَ مَعاذاً»؛(۵۹۸)
«خدایا ما همه بندگان تو مشتاق ظهور ولی تو هستیم، او که یادآور تو و رسول توست تو او را برای عصمت و نگه داری و پناه دین و ایمان ما آفریدی و او را برانگیخته ای تا قوام و حافظ و پناه خلق باشد».
۳۹۸ - مُعَبِّر:
در دعای مربوط به آن حضرت چنین آمده است:
«اَللَّهُمَّ ادْفَعْ عَنْ وَلِیکَ وَخَلِیفَتِکَ وَحُجَّتِکَ عَلی خَلْقِکَ وَلِسانِکَ الْمُعَبِّرِ عَنْکَ»؛(۵۹۹)
«خدایا هر بلایی را از ولی خودت و حجت بر خلقت و زبان گویای از جانب خودت دفع کن».
۳۹۹ - مُعتصم:
در کتاب دلائل الامامه، امام زمان (علیه السلام) به معتصم توصیف شده است.(۶۰۰)
۴۰۰ - مُعَدّ:
به معنای مهیا و آماده شده، از القاب امام زمان (علیه السلام) است.
چنان که در دعای ندبه می خوانیم:
«أَینَ الْمُعَدُّ لِقَطْعِ دابِرِ الظَّلَمَهِ»؛(۶۰۱)
«کجاست آن بزرگواری که برای ریشه کنی ظالمان و ستمگران عالم به امر خداوند، آماده و مهیا شده است».
۴۰۱ - مَعدن العلوم:
یعنی گنجینه علوم و کسی که علم تمام اشیاء نزد او حاضر است، چون او وارث تمام امامان و تمام انبیاء و رسولان الهی است، و آنان نیز چیزی جز علم و حکمت به ارث نگذاشته اند: «نحن معاشر الانبیاء لا نورث ذهباً و لافضه و لاداراً و لاعقاراً و انما نورث الکتب و الحکمه و العلم و النبوّه.»(۶۰۲)
لذا به آن حضرت سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا مَعْدِنَ الْعُلُومِ النَّبَوِیهِ»؛(۶۰۳)
«سلام بر تو ای معدن علوم وحی و نبوّت».
۴۰۲ - مُعِزّ:
به معنای عزیز کننده است و از القاب امام زمان (علیه السلام)، چرا که او خواهد آمد و مؤمنان و خداپرستان و مستضعفان را عزیز خواهد کرد.
«او» دوستان خدا را عزیز و دشمنانش را ذلیل خواهد کرد، لذا همیشه به دنبال او می گردیم و صدایش می کنیم:
«أَینَ مُعِزُّ الْأَوْلِیآءِ»؛(۶۰۴)
«کجاست آن که دوستان خدا را عزیز خواهد کرد».
و بر او سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا مُعِزَّ الْمُؤْمِنِینَ الْمُسْتَضْعَفِینَ»؛(۶۰۵)
«سلام بر تو ای عزت بخش اهل ایمان که در طول دوران ضعیف و ناتوان شدند».
۴۰۳ - معصوم:
«او» یکی از اهل بیت عصمت و طهارت است و بنا به تصریح قرآن کریم که «إِنَّما یرِیدُ الله لِیذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَیطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً».(۶۰۶) از هر گناه و خطا و سهو و نسیانی پاک و مبرا و در یک کلمه معصوم است. این نیز قسمتی از دعای استغاثه:
«وَالْحُجَّهِ الْقآئِمِ الْمَهْدِی، الْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ الْمَرْضِی وَابْنِ الْأَئِمَّهِ الطّاهِرِینَ، الْوَصِی ابْنِ الْأَوْصِیآءِ الْمَرْضِیینَ، الْهادِی الْمَعْصُومِ ابْنِ الْأَئِمَّهِ الْهُداهِ الْمَعْصُومِینَ»؛(۶۰۷)
«او که حجت خدا و قیام کننده به امر خداست، امام منتظر و پسندیده، فرزند امامان پاک، او که جانشین و فرزند جانشینان پیامبر است، آن امام هادی، معصوم فرزند امامان معصوم».
۴۰۴ - مُعلِن:
از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است که در قسمتی از زیارت و دعای مربوط به ایشان چنین آمده است:
«سَلامُ الله الْکامِلُ التّآمُّ الشّامِلُ الْعآمُّ، وَصَلَواتُهُ الدّآئِمَهُ، وَبَرَکاتُهُ الْقآئِمَهُ التّآمَّهُ، عَلی حُجَّهِ الله وَوَلِیهِ...، وَ مُعْلِنِ أَحْکامِ الْقُرْآنِ»؛(۶۰۸)
«سلام و درود کامل و تمام خداوند متعال و برکات پیوسته و همیشگی او بر حجت و ولی خودش صاحب زمان که احکام قرآن را اعلان و آشکار خواهد کرد».
۴۰۵ - مُعِیدُ الإسلام:
نام کسی است که به قدرت خداوند، اسلام را که متروک و فراموش شده است، زنده و از نو بر می گرداند، در قسمتی از زیارت سرّ من رأی آمده است:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا أَبَا الْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ... وَالْمُعِیدِ رَبُّنا بِهِ الْإِسْلامَ جَدِیداً بَعْدَ الاِنْطِماسِ».(۶۰۹)
«سلام بر تو ای پدر امام منتظر... امامی که خداوند متعال به وسیله او اسلام را بعد از آن که مندرس شده باشد، تجدید می کند.»
۴۰۶ - مُغَیب:
به معنای پنهان داشته شده، از القاب امام زمان (علیه السلام) است چون خداوند متعال «او» را پنهان و مخفی نگه داشته تا دست ظالمان و دشمنان به او نرسد.
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا أَبَا الْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ... وَالْمُغَیبِ عَنْ دَوْلَهِالْفاسِقِینَ».(۶۱۰)
خداوند متعال کاری کرده که دست دولت فاسق و غاصب زمان از دستگیری «او» کوتاه شود و به معجزه خداوند، چنان عمر طولانی کند تا همه فاسقان را مجازات نماید.(۶۱۱)
۴۰۷ - مِفتاح الکلام:
به معنای سرآغاز و کلید و گشاینده سخن است و از اوصاف امام زمان (علیه السلام) دانسته شده، چنان که در زیارت سرداب مقدّس وارد شده:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... وَمِفْتاحِ الْکَلامِ».(۶۱۲)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان، او که کلید و آغازگر کلام است».
۴۰۸ - مُفَرَّج اعظم:
کتاب هدایه الکبری و مناقب قدیمه، مفرج اعظم را از القاب امام زمان (علیه السلام) دانسته اند.(۶۱۳)
امام رضا (علیه السلام) فرموده اند:
هرگاه عالم شما ازبین شما غایب شد، پس منتظر باشید فرج اعظم را.(۶۱۴)
۴۰۹ - مُفَرّج الْکَرْب:
به معنای گشایش دهنده داغ و درد دل ها، گشایش بخش داغ دوران ها، و این کسی جز «او» نیست و «او» امام زمان (علیه السلام) است که خواهد آمد.
امام صادق (علیه السلام) در توصیف امام زمان (علیه السلام) فرموده است:
«... هُوَ الْمُفَرّجُ لِلْکَرْبِ عَنْ شِیعَتِهِ بَعْدَ فَنکٍ شَدِیدٍ وَبَلاءٍ طَوِیلٍ...»؛(۶۱۵)
«امام زمان (علیه السلام) داغ و درد و مشکلات را از شیعیانش برطرف می کند».
این هم قسمتی از زیارت ایشان:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَمُفَرِّجِ الْکَرْبِ وَمُزِیلِ الْهَمِّ»؛(۶۱۶)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت در زمین، آن آقایی که گشایش بخش دل ها و برطرف کننده همّ و غمّ است».
و در روز جمعه سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا نُورَ الله الَّذِی یهْتَدِی بِهِ الْمُهْتَدُونَ وَیفَرَّجُ بِهِ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ»؛(۶۱۷)
«سلام بر تو ای نور خدایی که هدایت یافتگان به وسیله نور تو هدایت می شوند و فرج مؤمنان به وسیله تو حاصل خواهد شد».
۴۱۰ - مُفَرّج الْکُرُبات:
به معنای گشاینده و برطرف کننده اندوه و مشکلات و سختی های مردم، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است.
چنان که سید بن طاووس در زیارت سرداب مقدّس آورده است:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... وَالسَّلامُ عَلی مُفَرِّجِ الْکُرُبات».(۶۱۸)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان،... و سلام بر امامی که گرفتاری های خلق را برطرف می کند».
۴۱۱ - مَفْزَع:
امامان (علیهم السلام) پناه و پناهگاه همه خلق هستند و غیر از ایشان پناهی نیست؛ چنان که در عبارت آمده است:
«وَ لا مَفْزَعَ الّا اَنْتُمْ...»(۶۱۹)
«غیر از شما پناهی نیست.»
۴۱۲ - مُفْضِل:
یعنی کسی که بخشنده و دارای فضل است و در هدایه الکبری به عنوان لقب امام زمان (علیه السلام) یاد شده است.(۶۲۰)
۴۱۳ - مُقْتَصِر:
به معنای قانع و کسی که به برخی از امور اکتفا می کند، مناقب آن را از القاب حضرت صاحب الزمان (علیه السلام) شمرده است.
شاید وجه تسمیه آن باشد که چون تمام انبیا و اوصیای گذشته مجبور بودند که مثل بقیه مردم زندگی کنند، با آنان معاشرت و مؤانست و مصاحبت و ازدواج و همراهی با منافقان و فاسقان داشته باشند، امّا امام زمان (علیه السلام) فقط به اعوان و انصار و مؤمنان و مخلصان و صالحان اکتفا خواهد کرد.(۶۲۱)
۴۱۴ - مَقْدُرَه:
به معنای توانایی است و چنان که در هدایه الکبری ذکر شده از القاب امام زمان (علیه السلام) است. وجه تسمیه آن نیز این است که از کثرت بروز و ظهور عجایب و قدرت الهی از آن حضرت، به حدی رسیده که گویا عین قدرت و توانایی است.(۶۲۲)
۴۱۵ - مُقدَّم:
به معنای تقدیم داشته شده و جلو افتاده، از القاب امام زمان (علیه السلام) است، چون او بر همه خلق فضیلت و برتری دارد و از همه خلایق سابق و مقدم است، چنان که در زیارت آل یاسین می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الْمُقَدَّمُ الْمَأْمُولُ»؛(۶۲۳)
«سلام بر تو ای آقایی که بر همه عالم مقدمی و همه خلایق آرزوی تو را دارند».
۴۱۶ - مَلاذ:
به معنای پناه و حافظ است و اوصاف و القاب امام زمان (علیه السلام) می باشد؛چنان که در دعای ندبه می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ وَنَحْنُ عَبِیدُکَ التّآئِقُونَ إِلی وَلِیکَ الْمُذَکِّرِ بِکَ وَبِنَبِیکَ خَلَقْتَهُ لَنا عِصْمَهً وَ مَلاذاً وَ أَقَمْتَهُ لَنا قِواماً وَ مَعاذاً»؛(۶۲۴)
«خدایا ما همه بندگان تو مشتاق ظهور ولی تو هستیم، او که یادآور تو و رسول توست تو او را برای عصمت و نگه داری و پناه دین و ایمان ما آفریدی و او را برانگیخته ای تا قوام و حافظ و پناه خلق باشد».
۴۱۷ - مُلَقِّن احکام:
به معنای تلقین کننده و تعلیم دهنده احکام است و غیر از حجه بن الحسن (علیه السلام) چه کسی می تواند احکام خدا و اسلام و قرآن را بعد از پیامبر و امامان (علیهم السلام) به مردم آموزش دهد. به همین خاطر برای او دعا می کنیم:
«سَلامُ الله الْکامِلُ التّآمُّ... عَلی حُجَّهِ اللهِ... وَمُلَقِّنِ أَحْکامِ الْقُرْآنِ»؛(۶۲۵)
«سلام تمام و کامل خداوند بر حجت او که تلقین کننده و تعلیم دهنده احکام قرآن است».
۴۱۸ - ملک:
در کتاب دلائل الامامه، امام زمان (علیه السلام) به ملک توصیف شده است.(۶۲۶)
۴۱۹ - مَنّان:
از اسمای حسنای خداست، لکن چون امام زمان (علیه السلام) مظهر اسمای الهی است و خدا امور را از طریق آن حضرت جاری می کند، به ایشان نیز منان گفته می شود.
از هدایه نقل شده است: در حدیث قدسی است که به وسیله امام، زمین را آباد می کنم و به بندگان روزی می دهم.(۶۲۷)
لذا در دعای عدیله فرمودند:
«بِیمْنِهِ رُزِقَ الْوَری وَبِوُجُودِهِ ثَبَتَتِ الأرْضُ وَالسَّماءُ»؛(۶۲۸)
«به برکت اوست که همه خلایق روزی داده می شوند و به وجود اوست که آسمان و زمین استقرار و ثبات دارند».
۴۲۰ - مِنْ اولاد الکرام:
«او» هم خود کریم و بخشنده است و هم فرزند امامان کریم است، اهل بیت (علیهم السلام) سراسر جود و کرم و سخاوت اند، «سَجِیتُکُمُ الْکَرَمُ».(۶۲۹)
لذا در روز جمعه خطاب به ایشان می گوییم:
«وَأَنْتَ یا مَوْلای کَرِیمٌ مِنْ أَوْلادِ الْکِرامِ»؛(۶۳۰)
«ای مولا و آقای من، تو کریم و از خاندان کرم و بزگواری هستی».
۴۲۱ - مُنْتَصر:
یعنی یاری کننده، یاری کننده دین خدا؛ از القاب امام زمان (علیه السلام) گفته شده است.
امام محمّد تقی (علیه السلام) فرمود:
«... وَاجْعَلْهُ الْقآئِمَ بِأَمْرِکَ وَالْمُنْتَصِرُ لِدِینِکَ...»؛(۶۳۱)
«... و خدایا او را قائم به امر خود و یاری دهنده دین خودت قرار بده».
۴۲۲ - منتظَر:
از نام های امام زمان (علیه السلام) منتظَر است؛ یعنی کسی که دیگران در انتظار اویند.
از امام محمّد تقی (علیه السلام) سؤال شد:
«لِمَ سُمِّی الْمُنْتَظَر؟ قال: لأنّی لَهُ غَیبَهٌ یکْرَهُ اَیامُها وَیطُولُ اَمَدُها فَینْظُر خُرُوجُهُ الْمُخْلِصُونَ وَتُنْکِرُهُ الْمُرْتابُونَ...»؛(۶۳۲)
«چرا امام زمان را منتظَر نامیده اند؟ فرمود: چون برای او غیبتی سخت و طولانی است، مؤمنان خالص در انتظار خروج اویند و شک کنندگان آن را انکار می کنند».
این نیز قسمتی از زیارت صاحب الامر:
«اَلسَّلامُ عَلَی الْقآئِمِ الْمُنْتَظَرِ وَالْعَدْلِ الْمُشْتَهَرِ»؛(۶۳۳)
«سلام بر آن آقا و امام قائمی که همه خلق در انتظار اویند، و سلام بر آن سلطان عادلی که مشهور همه عالمیان است».
۴۲۳ - منتظِر:
همه امّت ها و همه ملت ها، همه مکتب ها و مذهب ها و همه جهان منتظر اویند که بیاید. و او نیز خود منتظِر است، منتظر فرمان خدا که اذن ظهور را صادر نماید.
«اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ بَیتِهِ وَصَلِّ عَلی وَلِی الْحَسَنِ وَوارِثِهِ الْقائِمِ بِأَمْرِکَ وَالْغائِبِ فِی خَلْقِکَ وَالْمُنْتَظِرِ لأذْنِکَ»؛(۶۳۴)
«خدایا درود فرست بر محمّد و اهل بیت ایشان، و درود فرست بر جانشین امام عسکری (علیه السلام) و وارث او که به امر تو قیام خواهد کرد، او که در بین خلق پنهان و غایب است و در انتظار که فرمان خدا صادر شود».
۴۲۴ - منتقم:
به معنای انتقام گیرنده، یکی از القاب و اسامی امام زمان (علیه السلام) است. چون «او» می آید و انتقام تمام مظلومان و مستضعفان تاریخ، خصوصاً انبیا و اولیای الهی و به ویژه جدّ بزرگوارش امام حسین (علیه السلام) را می گیرد.
از پیامبر اعظم (صلی الله علیه وآله) نقل شده که خداوند فرموده است:
«وَهذَا الْمُنْتَقِمُ مِنْ اَعْدائِی یعْنِی الْمَهْدِی»؛(۶۳۵)
«این است انتقام گیرنده از دشمنان من، یعنی مهدی».
و خود امام زمان (علیه السلام) نیز فرموده است:
«أَنَا بَقِیهُ الله فِی أَرْضِهِ وَالْمُنْتَقِمُ مِنْ اَعْدائِهِ»؛(۶۳۶)
«من بقیه الله در زمین هستم و آن کسی که از دشمنان خدا انتقام خواهم گرفت».
۴۲۵ - منصور:
امام باقر (علیه السلام) در تفسیر آیه شریفه «وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِیهِ سُلْطاناً»(۶۳۷) آن کشته مظلوم را امام حسین (علیه السلام) معرفی نموده و منصور در آیه «إِنَّهُ کانَ مَنصُوراً» به امام زمان (علیه السلام) تأویل شده است.
و به وسیله او به خدا توسل می جوییم:
«وَأَتَوَسَّلُ إِلَیکَ یا رَبِّ بِإِمامِنا... وَالضِّیآءِ الْأَنْوَرِ، الْمَنْصُورِ بِالرُّعْبِ»؛(۶۳۸)
«خدایا به تو تقرب می جویم به وسیله امام ما، آن که روشن ترین نور الهی و کسی است که با ترس در دل دشمنان پیروز و یاری خواهد شد».
این نیز قسمتی از دعای ندبه:
«أَینَ الْمَنْصُورُ عَلی مَنِ اعْتَدی عَلَیهِ وَافْتَری؛(۶۳۹)
«کجاست آن یاری شده ای که بر هر کسی علیه او تعدی کند و افترا ببندد پیروز است».
و از کتاب ذخیره و تذکره نیز نقل شده است که در کتاب دید براهمه که می گویند کتاب آسمانی است، اسم موعود آخر الزمان منصور است(۶۴۰) که به معنای یاری شده و پیروز می باشد.
۴۲۶ - مُنْعِم:
این عنوان از اسمای حسنای الهی است و امام زمان (علیه السلام) که مظهر اسم اعظم است ملقب به چنین لقبی می شود، چنان که از دلائل الامامه و هدایه الکبری نقل شده است.(۶۴۱)
۴۲۷ - مُنَفّس الحَسرات:
به معنای برطرف کننده غم و اندوه و حسرت ها می باشد که از اوصاف امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است.
و در زیارت سرداب مقدّس که سید بن طاووس نقل کرده آمده است:
«وَالسَّلامُ عَلی مُفَرِّجِ الْکُرُباتِ وَخَوَّاضِ الْغَمَرَاتِ وَمُنَفَّسِ الْحَسَراتِ»(۶۴۲)
«سلام بر آن آقایی که گشاینده گرفتاری ها و برطرف کننده مشکلات و غم و اندوه هاست.»
۴۲۸ - مُنْقِذُ الأُمّه:
به معنای نجات دهنده امّت می باشد و این لقب شایسته امام زمان (علیه السلام) است.
چنان که امام علی (علیه السلام) در توصیف ایشان فرمود:
«... وَبِمَهْدِینا تَنْقَطِعُ الحُجَجُ فَهُوَ خاتِمُ الاَئِمَّهِ وَمُنْقِذُ الأُمَّهِ»؛(۶۴۳)
«به وسیله مهدی ماست که حجت های الهی منقطع و پایان می پذیرد، پس او آخرین امام است و نجات دهنده این امّت می باشد».
۴۲۹ - مُنِیر الحَقّ:
یعنی کسی که روشن کننده و آشکار کننده حقّ و احکام و اوامر آن است و این کسی جز امام زمان (علیه السلام) نیست، همان که در دعای بعد از زیارت آل یاسین می گوییم و برایش دعا می کنیم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَمُنِیرِ الْحَقِّ»؛(۶۴۴)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت در زمین همان که احکام و اوامر حقّ را روشن و آشکار می کند».
۴۳۰ - مُنْیهُ الصّابرین:
به معنای آرزوی صابران و بردباران می باشد که از القاب امام زمان (علیه السلام) است، چنان که در کتاب هدایه الکبری نقل شده است.(۶۴۵)
۴۳۱ - موتور:
به معنای کسی که به خون خواهی کشته مظلوم خواهد آمد، آنان که خون خواهی نشده اند.
در چند حدیث شریف از موتور به عنوان لقب امام زمان (علیه السلام) یاد شده است، امّا این که خون خواهی چه کسی را خواهد کرد، یا پدرش امام حسن عسکری (علیه السلام) است یا امام حسین (علیه السلام) یا تمام امامان مظلوم که امام زمان (علیه السلام) وارث تمام آنان است.
امام رضا (علیه السلام) در توصیف ایشان فرموده است:
«... وَهُوَ الطَّرِیدُ الشَّرِیدُ الْمَوْتُورُ بِاَبِیهِ وَجَدِّهِ صاحِبُ الْغَیبَهِ یقالُ ماتَ اَوْ هَلَکَ...»؛(۶۴۶)
«و او آن یگانه تنها و خون خواه پدر و جدش می باشد، او که دارای غیبت است و در موردش می گویند: مرده یا از بین رفته است...».
۴۳۲ - موجود:
برخلاف نظر برخی که به امام زمان (علیه السلام) اعتقاد دارند ولی می گویند هنوز به دنیا نیامده است، شیعه معتقد است که او متولد شده و موجود است. ایشان در نیمه شعبان سال ۲۵۵ ه.ق به دنیا آمده و اینک در پس پرده غیبت، زنده و موجود است.
۴۳۳ - موعود:
به معنای وعده داده شده از القاب امام زمان (علیه السلام) است که همه ادیان و ملل منتظر اویند و آمدنش را به یکدیگر وعده می دهند، و اولین وعده دهنده خود خداست و آن موعود کسی جز مهدی نیست.
دعای ماه شعبان، ماه تولد آن حضرت چنین آمده است:
«اَلسَّلامُ عَلَی الْمَهْدِی الَّذِی وَعَدَ الله بِهِ الأُمَمَ أَنْ یجْمَعَ بِهِ الْکَلِمَ»؛(۶۴۷)
«سلام بر آن مهدی که خداوند وعده اش را به تمام امّت ها داده است تا بیاید و پراکندگی ها را جمع نماید».
۴۳۴ - موفّق:
امام زمان (علیه السلام) مورد عنایت ویژه خداوند و موفق به توفیق الهی است و آنچه دارد همه از آن قادر متعال است.
۴۳۵ - مولا:
به معنای آقا و سرور، از القاب امام زمان (علیه السلام) است، چون او آقای همه عالمیان است.
و این است دعای همیشگی ما:
«اَللَّهُمَّ بَلِّغْ مَوْلانَا الْإِمامَ الْهادِی الْمَهْدِی، الْقآئِمَ بِأَمْرِکَ، صَلَواتُ الله عَلَیهِ...»؛(۶۴۸)
«خدایا سلام ما را به مولایمان ابلاغ فرما، او که امام هادی و مهدی است همان که به فرمان تو قیام خواهد کرد، درود خدا نیز بر او باد».
و در جای دیگر آمده:
«اَلسَّلامُ عَلَی مَوْلانا وَ سَیدِنا الامامِ الْقائِمِ بِاَمْرِ اللهِ صاحِبِ الزَّمانِ وَ رَحْمَهُ الله وَ بَرَکاتُهُ»؛(۶۴۹)
«سلام بر مولای ما و آقای ما، آن امامی که به امر خدا قیام می کند، امامی که صاحب عصر و زمان است، و رحمت و برکات خدا بر او باد».
۴۳۶ - مُهْتَدی:
به معنای هدایت یافته از القاب امام زمان (علیه السلام) است که در حدیثی درفضیلت پیامبر و امامان (علیهم السلام) آمده که «وَأُولَئِکَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»(۶۵۰) ایشان هستند.(۶۵۱)
«اَللَّهُمَّ فَإِنّا نَشْهَدُ... وَأَنَّهُ الْهادِی الْمُهْتَدِی الطّاهِرُ، التَّقِی النَّقِی، الرَّضِی الزَّکِی»؛(۶۵۲)
«خدایا پس ما شهادت می دهیم که او هادی هدایت یافته و پاک و باتقوا و پاکیزه و باصفا و مورد پسند است».
۴۳۷ - مهدی:
از مشهورترین و معروف ترین نام های امام زمان (علیه السلام) «مهدی» است، چه در شیعه و چه سایر فرقه های اسلامی.
از جهت لغت «مهدی» اسم مفعول است و به معنای هدایت یافته می باشد، امّا شیخ طوسی در کتاب الغیبه از ابوسعید خراسانی نقل می کند که از امام صادق (علیه السلام) پرسیدم: به چه جهت امام زمان (علیه السلام)، مهدی نامیده شده است؟
امام فرمود: چون مردم را به هر امر مخفی هدایت می کند.(۶۵۳)
امّا این که چرا این مفهوم را که برای هادی است در مهدی معنا می کنند، با توجّه به آیه قرآن «قُلْ هَلْ مِن شُرَکَآئِکُم مَن یهْدِی إِلَی الْحَقِّ قُلِ الله یهْدِی لِلْحَقِّ أَفَمَن یهْدِی إِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَن یتَّبَعَ أَمَّن لا یهِدِّی إِلَّآ أَن یهْدَی فَما لَکُمْ کَیفَ تَحْکُمُونَ»؛(۶۵۴) کسی می تواند هادی باشد که خودش هدایت شده (مهدی) باشد و کسی که خودش هدایت نیافته، نمی تواند هادی و امام باشد.
و این نیز دعای ما در هر روز جمعه:
«وَصَلِّ عَلَی الْخَلَفِ الْهادِی الْمَهْدِی اِمامِ الْمُؤْمِنِینَ»؛(۶۵۵)
«و خدایا درود فرست بر آن جانشین شایسته که هم هادی است و هم مهدی، او که امام مؤمنان است».
۴۳۸ - مهدی الأُمم:
مطابق همان معنایی که در عنوان قبلی گفته شد، «او» نه تنها مهدی مؤمنان و مسلمانان است، بلکه برای همه امّت ها و ملت ها، برای همه مکتب ها و مذهب ها، برای همه عصرها و شهرها و... مهدی است، او مهدی همه است، مهدی امم است، لذا همه در انتظارش می باشند اگرچه هر کدام به نامی او را می خوانند.
و این است سلام ما به آن حضرت:
«اَلسَّلامُ عَلی مَهْدِی الْأُمَمِ وَجامِعِ الْکَلِمِ»؛(۶۵۶)
«سلام بر آن آقایی که هدایت کننده و مهدی همه امّت هاست، و او که جمع کننده همه کلمات وحی خدایی است».
۴۳۹ - مُهَذَّب:
به معنای تهذیب شده و پاکیزه جان، از القاب امام زمان (علیه السلام) است چون «او» و سایر امامان (علیهم السلام) به نصّ قرآن کریم همه پاک و معصوم اند.(۶۵۷)
و فرموده اند هر روز جمعه این گونه به ایشان سلام دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الْمُهَذَّبُ الْخآئِفُ»؛(۶۵۸)
«سلام بر تو ای پاکیزه جان و از ترس پنهان».
۴۴۰ - مَهْمِیدُ الآخر:
از تذکره الائمه و ذخیره نقل شده که به موعود آخر الزمان در انجیل «مهمید الآخر» نام نهاده اند.(۶۵۹)
۴۴۱ - میثاق الله:
«او» میثاق و عهد و پیمان خداست، همان عهدی که از همه خلق گرفته است، چنان که در زیارت آل یاسین آمده است:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا مِیثاقَ الله الَّذِی أَخَذَهُ وَوَکَّدَهُ»؛(۶۶۰)
«سلام بر تو ای عهد و میثاق خدا (امامت و ولایت و خلافت غیب و ظهور) که خداوند آن عهد را از خلق گرفت و آن را محکم و مؤکد گردانید».
۴۴۲ - میزان الحقّ:
به معنای ترازوی سنجش حقّ از باطل است و از کتاب های ذخیره و تذکره الائمه نقل شده که نام موعود آخرالزمان در کتاب آژی پیغمبر «میزان الحق» است.(۶۶۱)
۴۴۳ - مُؤتَمَن:
یعنی کسی که مورد اعتماد و اطمینان و امین دیگران است.
و امام زمان (علیه السلام) امین همه چیز و همه کس است، بالاتر از همه «او» امین رازها و اسرار الهی است.
چنان که در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بَقِیهَ الله فِی أَرْضِهِ... الْمُؤْتَمَنِ عَلَی السِّرِّ وَالْوَلِی لِلْأَمْرِ»؛(۶۶۲)
«سلام بر بقیه الله در زمین، آن که امین بر سرّ حقّ و ولی امر است».
۴۴۴ - مُؤَلِّف الشَّمل:
یعنی کسی که پریشانی ها و نگرانی های خلق را به خیر و صلاح تبدیل می کند و این ندا و ندبه همیشگی بیچارگان است:
«أَینَ مُؤَلِّفُ شَمْلِ الصَّلاحِ وَالرِّضا»؛(۶۶۳)
«کجاست آن مصلح امور عالم که پریشانی های خلق را اصلاح و دل ها را خشنود می سازد».
پس بر او سلام می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا مُؤَلِّفَ شَمْلِ الصَّلاحِ وَالرِّضا»؛(۶۶۴)
«سلام بر تو ای کسی که نگرانی ها و پریشانی ها را به خیر و صلاح و خشنودی تبدیل می کنی».
۴۴۵ - مُؤَمَّل:
به معنای مورد امید و آرزو شده می باشد. از القاب امام زمان (علیه السلام) است؛ چنان که از امام حسن عسکری (علیه السلام) روایت شده است، آن گاه که حضرت حجت به دنیا آمد، فرمود:
«زَعَمَ الظَّلَمَهُ اَنَّهُمْ یقْتُلُونَنِی لِیقْطَعُوا هذَا النَّسْلَ کَیفَ رَأَوْا قُدْرَهَ الله وَسَمّاهُ الْمُؤَمَّلَ»؛(۶۶۵)
«ظالمان گمان کردند که مرا خواهند کشت تا این نسل را قطع نمایند! قدرت خدا را چگونه دیده اید؟ و آن گاه او را مؤمل نامید».
این هم قسمتی از دعای ندبه برای امام زمان (علیه السلام):
«أَینَ الْمُؤَمَّلُ لِإِحْیآءِ الْکِتابِ وَحُدُودِهِ»؛(۶۶۶)
«کجاست آن که همه در آرزوی اویند تا بیاید و کتاب آسمانی قرآن و حدود آن را احیا کند؟»
و هر شب ماه رمضان در دعای افتتاح برایش دعا می کنیم:
«اَللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلی وَلِی أَمْرِکَ الْقآئِمِ الْمُؤَمَّلِ، وَالْعَدْلِ الْمُنْتَظَرِ»؛(۶۶۷)
«خدایا درود فرست بر ولی خودت، آن که همه آرزو دارند به فرمان تو قیام کند و او که عدالت محض است و همه در انتظارش می باشند...».
۴۴۶ - مُؤَید:
یعنی کسی که مورد تأیید و توفیق خداوند است، از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) می باشد؛ چنان که آن حضرت را این گونه توصیف نموده اند:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... الْقائِمِ الْمُعْتَمَدِ وَالْمَنْصُورِ الْمُؤَیدِ»؛(۶۶۸)
«سلام و درود و رحمت و برکات خداوند بر مولای ما صاحب الزمان، آن قائم مورد اعتماد، و آن منصور مؤید».
۴۴۷ - ناحیه مقدسه:
از جنات الخلود نقل شده است که در ایامی که شیعیان از ترس حکومت ظلم و جور در تقیه بودند، از آن حضرت به ناحیه تعبیر می کردند و در توقیعات فراوان است که:
«خَرَجَ تَوْقِیعٌ مِنَ النّاحِیهِ الْمُقَدَّسَهِ حَرَسَها الله تَعالی...»؛(۶۶۹)
«توقیع و نامه مبارک امام زمان از ناحیه مقدسه که خداوند آن را حفظ و حراست نماید صادر شد...».
۴۴۸ - نازح:
به معنای دور از وطن و دور افتاده از دوستان می باشد، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است.
و در دعای ندبه قربان صدقه آن حضرت می شویم:
«بِنَفْسِی أَنْتَ مِنْ نازِحٍ ما نَزَحَ عَنّا»؛(۶۷۰)
«جانم به قربان تو ای آقای دور افتاده ای که از ما دور نیست».
۴۴۹ - ناشر العدل:
از القاب و اسامی امام زمان (علیه السلام)، ناشر است.
«او» خواهد آمد و احکام و معارف الهی را نشر خواهد داد.
«او» می آید و عدل و داد را در سراسر عالم گسترش می دهد.
لذا این گونه به ایشان سلام می دهیم و دعا می کنیم:
«سَلامُ الله الْکامِلُ التّآمُّ... عَلی حُجَّهِ اللهِ... وَناشِرِ الْعَدْلِ فِی الطُّولِ وَالْعَرْضِ»؛(۶۷۱)
«سلام و درود کامل و تمام خداوندی بر حجت او که بنیان عدل و داد را در سراسر طول و عرض جهان نشر خواهد داد».
۴۵۰ - ناشر رایه الهُدی:
آن گاه که امام زمان (علیه السلام) بیاید، پرچم هدایت را بلند می کند و سرتاسر عالم را به زیر آن می آورد:
«أَینَ صاحِبُ یوْمِ الْفَتْحِ وَناشِرُ رایهِ الْهُدی؛(۶۷۲)
«کجاست آن آقایی که فرمانده و صاحب روز پیروزی است، آن که پرچم هدایت را در سراسر عالم گسترش خواهد داد».
سپس به آن حضرت سلام می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا صَاحِبَ الْفَتْحِ وَناشِرَ رایهِ الْهُدی؛(۶۷۳)
«سلام بر تو ای صاحب پیروزی و نشر دهنده پرچم هدایت!»
۴۵۱ - ناصح:
یعنی خیرخواه و مشفق، و لقبی است برای «او» که خیرخواه تمام خلق است، فریادرس همه است، از هر دین و ملت و آیینی.
و چنین است زیارت آن حضرت:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... الْمُرْتَقِبِ الْخآئِفِ وَالْوَلِی النّاصِحِ»؛(۶۷۴)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت در زمین، آن آقایی که از جور و آسیب دشمنان دائماً مراقب و نگران است، ولی برای امّت، سرپرست و خیرخواه است».
و در جای دیگر:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ أَیهَا الْوَلِی النّاصِحُ»؛(۶۷۵)
«سلام بر تو ای آقایی که ولی ناصح هستی».
۴۵۲ - ناصر:
به معنای یار و یاور دین خدا، یاری کننده حقّ خدا، و از نام های مهدی موعود (علیه السلام) است، که در زیارت آل یاسین می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا خَلِیفَهَ الله وَناصِرَ حَقِّهِ»؛(۶۷۶)
«سلام بر تو ای جانشین خدا در زمین، و ای نصرت بخش و یاری دهنده دین و حقّ خدا».
۴۵۳ - ناطق:
یعنی گویا و سخن گو که برابر آنچه مناقب و هدایه الکبری نقل کرده اند، ناطق نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۶۷۷)
در روایتی طولانی پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) نام های امامان (علیهم السلام) را به سلمان ذکر نمود تا این که فرمود:
«... ثُمَّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِی الصّامِتِ الأمِینِ الْعَسْکَرِی ثُمَّ ابْنُهُ حُجَّهُ بْنُ الْحَسَن الْمَهْدِی النّاطِقِ الْقائِمِ بِأمْرِ اللهِ...»؛(۶۷۸)
«... سپس حسن بن علی، صامت امین عسکری، پس پسر او حجت بن الحسن المهدی آن امام ناطق که به امر خداوند قیام می کند».
لذا در دعای بعد از زیارت آل یاسین می گوییم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَالنّاطِقِ بِالْحِکْمَهِ وَالصِّدْقِ»؛(۶۷۹)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت در زمین، همان که به حقایق حکمت و صدق گویاست».
همچنین در زیارت عاشورا می خوانیم:
مَعَ إِمامِ مَهْدِی ظاهِرٍ ناطِقٍ بِالْحَقِّ مِنْکُمْ».
وجه تسمیه آن حضرت نیز معلوم است، چون امامان گذشته مهر خاموشی بر لب زده، هم تقیه داشتند و هم کسی را نمی یافتند که با او در میان بگذارند.
۴۵۴ - ناظر:
به معنای بینا و بیننده، از القاب امام زمان (علیه السلام) است. و «او» که ناظر همه چیز و همه جا و همه کس می باشد، به قدرت الهی بر همه جا احاطه دارد، حتی هم اکنون نیز بهشت و جهنم را و بالاتر از آن را نظاره می کند.
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا ناظِرَ شَجَرَهِ طُوبی وَسِدْرَهِ الْمُنْتَهی؛(۶۸۰)
«سلام بر تو ای آقایی که درخت طوبی و سدره المنتهای بهشت را به چشم مشاهده می کنی».
۴۵۵ - ناقور:
ناقور به معنای صور است، مانند شاخ و مثل آن که در او می دمند.
امام صادق (علیه السلام) در تفسیر آیه شریفه «فَإِذَا نُقِرَ فِی النّاقُورِ» هرگاه در صور دمیده شد، فرمود:
«إنَّ مِنّا إماماً مُظَفَّراً مُسْتَتِراً فَإذا اَرادَ الله عَزَّ ذِکْرُهُ اِظْهارَ اَمْرِهِ نَکَتَ فِی قَلْبِه نُکْتَهً فَظَهَرَ فَقامَ بِاَمْرِ الله تَبارَکَ وَتَعالی؛(۶۸۱)
«برای ما امامی است مستتر، که هرگاه خداوند اراده کند وی را اظهار نماید، در دلش می اندازد، پس به امر خداوند متعال خروج می کند...».
همچنین از امام صادق روایت شده که در تفسیر این آیه فرمود:
در گوش قائم دمیده می شود و برای خروج به وی اذن می دهد.(۶۸۲)
۴۵۶ - ناموس العصر:
در اعمال نیمه شعبان و دعا برای امام زمان (علیه السلام) می گوییم:
«اَللّهُمّ بِحَقِّ لَیلَتِنا وَمَولُودِها... سَیفُ الله الَّذِی لاینْبُو وَنُورُهُ الَّذِی لایخْبُو وَذُو الْحِلْمِ الَّذِی لایصْبُو مِدارُ الدَّهْرِ وَنَوامِیسُ الْعَصْرِ»؛(۶۸۳)
«خدایا به حقّ این شب و مولود آن... آن شمشیر خدایی که کند نمی شود و آن نور الهی که خاموش نمی گردد،و آن بردباری که شکیبایی اش را از دست نمی دهد، او که محور روزگار و ناموس عصر و زمان است».
۴۵۷ - نَجْم:
به معنای ستاره درخشان است و چنان که از کتاب های ذخیره و نجم الثاقب نقل شده، از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۶۸۴)
و در قرآن نیز ذکر شده است.
اگرچه امامان همه ستارگان آسمان ولایت هستند.
امام باقر (علیه السلام) فرمود:
«إنَّما نَحْنُ کَنُجومِ السَّماءِ کُلَّما غابَ نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ حَتّی إذا اَشَرْتُم بَأصابِعَکُمْ وَمِلْتُمْ بِاَعْناقِکُمْ غَیبَ الله عَنْکُمْ نَجْمَکُمْ فَاسْتَوَتْ بَنُو عَبْدالمُطَلِّب فَلَمْ یعْرَفْ اَی مِنْ اَیّ فَإذا طَلَعَ نَجْمُکُمْ فَاحْمِدُوا رَبَّکُمْ».(۶۸۵)
«همانا ما چون ستارگان آسمانیم که هر زمان اختری غروب کند اختری دیگر طلوع می نماید، تا آن گاه که با انگشت خود امام را نشان دادید و به سوی او گردن کشیدید، خدا ستاره هدایت شما را نهان سازد، پس فرزندان عبدالمطلب که خاندان امامت باشند در نظر مردم برابر گردند و معلوم نشود که کدام امام است. پس آن گاه که ستاره شما طلوع کرد پروردگار خود را سپاس گزارید.»
۴۵۸ - نصر:
در کتاب دلائل الامامه، امام زمان (علیه السلام) به نصر توصیف شده است.(۶۸۶)
۴۵۹ - نَضْرَهُ الایام:
«او» موجب شادی و خرمی عالم و آدم است، خلقت و طبیعت و روزگاران به وجود او مسرورند، چرا که بیمنه رزق الوری وبوجوده ثبتت الارض والسماء.
پس نضره الایام نیز از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است، چنان که در زیارت ایشان می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلی رَبِیعِ الْأَنامِ وَنَضْرَهِ الْأَیامِ»؛(۶۸۷)
«سلام بر آن آقایی که بهار پاینده اهل عالم است و سلام بر آن مولایی که موجب شادی و خرمی روزگاران است».
۴۶۰ - نظام الدین:
امام زمان (علیه السلام) محور عالم و آدم است، «او» محور خلقت و طبیعت است، «او» محور دین و دیانت است، همه چیز به دور شمع وجود او می چرخد و همه امور به واسطه او سامان می یابند، از جمله دین که «او» سامان دهنده و نظام بخش آن می باشد. پس همان طور که از معصومین رسیده، به جاست که ایشان را این گونه توصیف کنیم:
«أَنْتَ نِظامُ الدِّینِ، وَیعْسُوبُ الْمُتَّقِینَ»؛(۶۸۸)
«تو نظام بخش دین هستی و پیشوای پرهیزکاران».
۴۶۱ - نِعْمَه الباطنه:
از امام کاظم (علیه السلام) در مورد تفسیر آیه شریفه «... وَأَسْبَغَ عَلَیکُمْ نِعَمَهُ ظهِرَهً وَباطِنَهً....»(۶۸۹) سؤال شد، فرمودند:
«اَلنِّعْمَهُ الظّاهِرَهُ الامامُ الظّاهِرُ وَ الْباطِنَهُ الامامُ الْغائِبُ... وَ هُوَ الثّانِی عَشَرَ مِنّا»(۶۹۰)
«نعمت آشکار امام ظاهر است و نعمت باطن، امام غایب می باشد... و او دوازدهمین نفر از ما امامان است.»
۴۶۲ - نفس:
نفس نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) است، چنان که در هدایه الکبری نقل کرده است.(۶۹۱)
۴۶۳ - نقی:
به معنای پاک و خالص است و از نام های مهدی موعود (علیه السلام) می باشد، چنان که در زیارتش می خوانیم:
«... وَأَنَّهُ الْهادِی الْمُهْتَدِی الطّاهِرُ، التَّقِی النَّقِی، الرَّضِی الزَّکِی»؛(۶۹۲)
«او امام هدایت کننده و هدایت شونده است، او پاک و باتقوا و پاکیزه و باصفا و مورد پسند است».
و در جای دیگر می فرمایند:
«وَ نَقَّیتَهُ مِنَ الدَّنَسِ...»(۶۹۳)
«خدایا تو او را از هر نوع آلودگی پاک کردی.»
۴۶۴ - نقیب:
نقیب به معنای سرپرست و امام می باشد که بر تمام امامان (علیهم السلام) اطلاق می شود و دوازدهمین نقیب امام زمان (علیه السلام) است؛ همان طور که طبق آیه شریفه، در بنی اسرائیل نیز چنین بوده است:
«وَلَقَدْ أَخَذَ الله مِیثقَ بَنِی إِسْرائِیلَ وَبَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَی عَشَرَ نَقِیباً...»(۶۹۴)
در این زمینه حدیث مفصلی ابن عباس و جابر بن عبد الله از پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) نقل کرده اند که مراجعه شود.(۶۹۵)
۴۶۵ - نور:
«او» نور است، روشنایی است و از درخشش نور الهی است، نور او از مرکز نور الهی است و نور الهی خاموش شدنی نیست.
«اَلسَّلامُ عَلَی النُّورِ الَّذِی أَرادَ أَهْلُ الْکُفْرِ إِطْفآءَهُ، فَأَبَی الله إِلّا أَنْ یتِمَّ نُورَهُ بِکُرْهِهِمْ»؛(۶۹۶)
«سلام بر آن نوری که اهل کفر و شرک و نفاق خواستند آن را خاموش نمایند امّا خدا امتناع فرمود مگر این که خدا خواست تا نورش را تام و کامل نماید هرچند کافران با آن مخالف باشند».(۶۹۷)
۴۶۶ - نور آل محمّد(علیهم السلام):
پیامبر(صلی الله علیه وآله) و امامان (علیهم السلام) همه نورند، نور واحدند، و «او» نور همه آنان است، چون او نور الانوار است؛ چنان که در توصیف آن حضرت گفته شده است:
«اَلامامُ الثّانِی عَشَرَ وَ الْهادِی الْمُنْتَظَر وَ الْمَهْدِی الْمُظَفَّرُ وَ نُورُ الانْوار وَ حُجَّهُ الْجَبّار...».(۶۹۸)
«آن امام دوازدهم، آن هادی منتنظر و آن مهدی مظفر، نور همه نورها و حجّت خدای متعال...»
۴۶۷ - نُور اَبصار الوَری:
به معنای نور دیده بندگان و خلایق است و امام زمان (علیه السلام) چشم روشنی و نور دیده همه عالمیان است.
لذا در زیارت آل یاسین می گوییم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَعَلَمِ الْهُدی وَنُورِ أَبْصارِ الْوَری؛(۶۹۹)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت در زمین، همان که پرچم هدایت و روشنی بخش دیده بندگان است».
۴۶۸ - نُور الاتقیاء:
در مشارق انوار الیقین از حکیمه خاتون نقل شده است:
آن گاه که امام زمان متولد شد، ایشان را نزد برادرم امام عسکری (علیه السلام) آوردم، حضرت با دست شریف او را مسح کرد و فرمود:
سخن بگو ای حجه الله و بقیه انبیا و نور اصفیا و غوث فقرا و خاتم اوصیا و نور اتقیا و صاحب کره بیضا.(۷۰۰)
۴۶۹ - نُور الأرض:
یعنی نور و روشنایی زمین؛ بنا بر حدیثی که آیه شریفه «وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها»(۷۰۱) را به امام زمان (علیه السلام) تفسیر کرده اند.
۴۷۰ - نُور الاصفیاء:
از القاب آن حضرت گفته شده است.(۷۰۲)
و روایتی نیز در این زمینه از حکیمه خاتون هست که در «نور اتقیا» گذشت.
۴۷۱ - نور الانوار:
امام زمان نور است و نور همه نورها؛چنان که گفته شده:
«نُورُ الانْوارِ الَّذِی تَشْرَقُ بِهِ الارْضُ عَمّا قَلِیلٌ».(۷۰۳)
«امام زمان نور همه نورهاست، آن نوری که به زودی زمین به نور وجود جمالش روشن خواهد شد.»
اگرچه همه امامان نیز نورند:
«اَنْتُمْ نُورُ الأنْوارِ وَهُداهُ الأبْرارِ وَائِمَّهُ الأخْیارِ»؛(۷۰۴)
«شما نور همه نورهایید، شما هادیان و امامان نیکان و ابرار هستید.»
و از جمله آنان، امام زمان (علیه السلام) است.
۴۷۲ - نور الباهر:
به معنای نور و روشنی خیره کننده که از القاب امام زمان (علیه السلام) است.
چنان که در زیارت آن حضرت آمده است:
«اَلسَّلامُ عَلَی السَّیفِ الشّاهِرِ وَالْقَمَرِ الزّاهِرِ وَالنُّورِ الْباهِرِ»؛(۷۰۵)
«سلام بر آن صاحب شمشیر از نیام کشیده برای دشمنان حقّ، سلام بر ماه تابان و سلام بر آن نور درخشان بر ظلمت کده عالم».
۴۷۳ - نور الله:
از القاب امام زمان (علیه السلام)، «نور الله» است، چون «او» نور خدا در زمین است، «او» پرچم و نشانه خداست.
لذا این گونه به ایشان سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا نُورَ الله الَّذِی یهْتَدِی بِهِ الْمُهْتَدُونَ وَیفَرَّجُ بِهِ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ»؛(۷۰۶)
«سلام بر تو ای نور خدا در زمین، همان که به وسیله این نور آنان که اهل هدایت باشند به سوی حقّ راهنمایی می شوند و برای مؤمنان فرج حاصل می شود».
و نور خدا هیچ گاه خاموش نمی شود:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا نُورَ الله الَّذِی لا یطْفی؛(۷۰۷)
«سلام بر تو ای آقایی که نور خدا هستی و نور خدا خاموش شدنی نیست».
لذا وقتی از امام می پرسند: «وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ»(۷۰۸) منظور چیست؟
فرمود: «وِلایهُ القائِمِ».(۷۰۹)
۴۷۴ - نور الهُدی:
دلائل الامامه ذکر کرده است که نور الهدی نیز از القاب امام زمان (علیه السلام) است.(۷۱۰)
۴۷۵ - نهار:
نهار از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) است که امام علی و امام حسین (علیهما السلام)، آن حضرت را نام نهاده اند.
نجم الثاقب از تفسیر فرات کوفی نقل می کند که امام باقر (علیه السلام) فرموده است: حارث اعور به امام حسین (علیه السلام) عرض کرد: یا بن رسول الله! فدایتان شوم «وَالشَّمْسِ وَضُحیها» یعنی چه؟
فرمود: آن محمّد رسول خداست.
گفتم: فدایتان شوم، «وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَیاها» یعنی چه؟
فرمود: آن امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب است که در پی پیامبر آمده.
عرض کردم: «وَالنَّهارِ إِذَا جَلَّیاها» یعنی چه؟
فرمود: آن قائم از آل محمّد است که زمین را از عدل و داد پر می کند.(۷۱۱)
امام علی (علیه السلام) نیز فرموده است:
«وَالنَّهارِ إذا تَجَلّی قالَ النَّهارُ هُوَ الْقائِمُ مِنّا اَهْلُ الْبَیتِ (علیهم السلام) إذا قامَ غَلَبَ دَوْلَهَ الباطِلِ...»؛(۷۱۲)
«منظور از نهار در آیه شریفه، قائم از ما اهل بیت است، آن گاه که قیام کند بر تمام دولت های باطل غلبه خواهد کرد. (همان طورکه روز بر شب غالب می شود)».
۴۷۶ - وارث:
به معنای جانشین و ارث برنده است.
امام باقر (علیه السلام) فرموده است: ما در کتاب حضرت علی (علیه السلام) یافتیم که در باره آیه شریفه «.... إِنَّ الأَرْضَ للهِ یورِثُها مَن یشَآءُ مِنْ عِبادِهِ وَالْعاقِبَهُ لِلْمُتَّقِینَ»(۷۱۳) فرمودند:
«أَنَا وَ أَهْلُ بَیتِی الَّذِینَ أَوْرَثَنَا الله الارْضَ وَ نَحْنُ الْمُتَّقُونَ...»(۷۱۴)
«من و خاندانم همان کسانی هستیم که خدا زمین را به ما واگذار کرده و ما هستیم پرهیزگاران....»
اگرچه هر امامی وارث امام قبل از خود بوده است، امّا امام زمان (علیه السلام) وارث تمام آنان است که دیگر بعد از وی امامی نخواهد بود.
«او» آخرین وارث و آخرین وصی است. این که آن حضرت وارث امامان است نه این که فقط وارث مال و ملک ایشان باشد بلکه وارث تمام فضایل و کمالات آنان است، علاوه بر این که خصایصی را هم خداوند به شخص ایشان خواهد داد، لذا پیامبر(صلی الله علیه وآله) در خطبه غدیر فرمود:
«أَلا إنَّهُ وارِثُ کُلِّ عِلْمٍ وَالْمُحِیطُ بِهِ»؛(۷۱۵)
«آگاه باشید که تمام علوم به ارث او می رسد و او بر همه آن احاطه دارد».
۴۷۷ - وارث الانبیاء:
به معنای جانشین و وارث تمام پیامبران و جانشینان آنان است.
«او» خلاصه و امید و وارث تمام آن خوب هاست.
در حدیثی طولانی مفضل از امام صادق (علیه السلام) نقل می کند که امام زمان (علیه السلام) هنگام روبه رو شدن با لشکر حسنی، چیزی به نام سَفَط حاضر می کند که نشانه تمام انبیای گذشته در آن است؛ از جمله، انگشتر و عصا و زره پیامبر، قرآن و عمامه و اسب آن حضرت؛ همچنین عصای آدم، وسیله نجاری نوح، میراث هود، صالح، ابراهیم، یوسف، انگشتر سلیمان، عصا و تابوت آل موسی،....(۷۱۶)
لذا به ایشان سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلی وارِثِ الْأَنْبِیآءِ وَخاتمِ الْأَوْصِیآءِ»؛(۷۱۷)
«سلام بر وارث پیامبران و آخرین وصی پیامبر خاتم».
۴۷۸ - وارث المرسلین:
امام زمان (علیه السلام) وارث همه رسولان و امید همه پیامبران الهی می باشد که خداوند خبر و وعده اش را به آنان داده است.
«اَللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلَی الْخَلَفِ الْهادِی الْمَهْدِی، إِمامِ الْمُؤْمِنِینَ وَوارِثِ الْمُرْسَلِینَ وَحُجَّهِ رَبِّ الْعالَمِینَ»؛(۷۱۸)
«خدایا درود فرست بر آن جانشین پیامبر، آن هدایت گر و هدایت شده که امام مؤمنان، وارث رسولان الهی و حجت پروردگار جهانیان است».
۴۷۹ - وارث ذوالفقار:
وارث شمشیر دو دم و برنده؛ شمشیری که طعم شکست را نمی چشد، و کسی در مقابل او سالم نمی ماند، هر که به وسیله او کشته شود، مستقیم به جهنم می رود. او وارث و دارنده چنین شمشیری است. این هم قسمتی از زیارت مربوط به آن امام:
«اَلسَّلامُ عَلَی الإمامِ الْغائِبِ عَنِ الأَبْصارِ وَالْحاضِرِ فِی الأمْصارِ وَالْغائِبِ عَنِ الْعُیونِ وَالْحاضِرِ فِی الأفْکارِ بَقِیهِ الأخْیارِ الْوارِثِ ذَالْفَقارِ الَّذِی یظْهَرُ فِی بَیتِ الله الْحَرامِ»؛(۷۱۹)
«سلام بر آن امامی که از دیده ها پنهان است امّا در شهرها حاضر است، از چشم ها غایب است امّا در خاطره ها حاضر است، باقی مانده نیکان همان که وارث ذوالفقار است، و آن را در خانه خدا ظاهر می سازد».
۴۸۰ - واقیذ:
در کتاب جنات الخلود گفته نام موعود آخرالزمان در کتب آسمانی «واقیذ» است؛ یعنی کسی که مدت طولانی غیبت می نماید.(۷۲۰)
۴۸۱ - وَتْر:
به معنای فرد وتنها از اسامی امام زمان (علیه السلام) است؛ چنان که امام باقر (علیه السلام) در تأویل آیات «وَالْفَجْرِ وَلَیالٍ عَشْرٍ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ»(۷۲۱) فرموده است:
«وَ الْفَجْرُ جَدِّی وَلَیالٍ عَشْرٍ، عَشَرَهُ الائِمَّهِ وَ الشَّفْع، أَمِیرُالمُؤْمِنِینَ وَ الْوَتْر اِسْمُ الْقائِمِ»؛
«فجر، جدم رسول خداست و شب های دهگانه، امامان هستند و شفع (زوج) امیر المؤمنین (علیه السلام) است و وتر اسم قائم (علیه السلام) می باشد.»
۴۸۲ - وِتْر:
در مناقب و هدایه الکبری از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده؛(۷۲۲) چنان که در زیارت سرداب نیز آمده است:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ... وَالْوِتْرِ الْمَوْتُورِ»؛(۷۲۳)
«خدایا درود فرست بر حجت خودت در زمین...آن امامی که مورد ستم واقع شده و هنوز انتقام خود را نگرفته است.»
۴۸۳ - وَجْه الله:
به معنای آیینه خدا، چون هر کسی را بخواهند ببینند و بشناسند باید به صورت او نگاه کنند و خدا که منزه از جسم و صورت ظاهری است پس باید برای شناخت خداوند به «او» نگاه کرد.
از امیرالمؤمنین (علیه السلام) رسیده است در مورد آیه شریفه «فَأَینَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ»(۷۲۴) فرمودند:
«هُمْ بَقِیهُ الله یعْنِی الْمَهْدِی یأْتِی عِنْدَ انْقِضاءِ هذِهِ النَّظْرَهِ...»؛(۷۲۵)
«آنان ذخیره و باقی مانده خدایند یعنی مهدی که در پایان این مدت می آید».
«او» را که دیدیم و شناختیم، خدا را شناخته ایم؛ لذا می گوییم:
«أَینَ وَجْهُ الله الَّذِی إِلَیهِ یتَوَجَّهُ الْأَوْلِیآءُ»؛(۷۲۶)
«کجاست آن وجه الهی که دوستان خدا به سوی او روی می آورند».
و این گونه به آن حضرت سلام می دهیم:
«اَلسَّلامُ عَلی وَجْهِ الله الْمُنْقَلَبِ بَینَ اَظْهُرِ عِبادِهِ»؛(۷۲۷)
۴۸۴ - وَجیه:
به معنای آبرومند و از القاب امام زمان (علیه السلام) است. «او» آبرومند نزد خداست، لذا از او درخواست می کنیم که واسطه بین ما و خدا باشد:
«یا وَجِیهاً عِنْدَ اللهِ، اِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللهِ»؛(۷۲۸)
«ای آبرومند نزد خدا، شفاعت کن برای ما نزد خدا».
۴۸۵ - وحید:
به معنای تنها و بی همتاست و لذا امام کاظم (علیه السلام) فرمود:
«هُوَ الطَّرِیدُ الْوَحِیدُ الْغَرِیبُ الْغائِبُ عَنْ اَهْلِهِ الْمَوْتُورُ بِاَبِیهِ»؛(۷۲۹)
«آن رانده شده تنها و غریب که از اهل خودش غایب است...».
و در زیارت سرداب می گوییم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ اَیهَا الاِمامُ الْوَحِید».(۷۳۰)
«سلام بر تو ای امام تنها و یگانه!»
۴۸۶ - وصی:
«او» جانشین است، یکی از جانشینان پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) است، اگرچه «وصی» هرگاه به طور مطلق استعمال شود بیشتر امام علی (علیه السلام) منظور است؛ لکن اکنون کسی جز امام زمان (علیه السلام) جانشین پیامبر اعظم (صلی الله علیه وآله) نیست.
۴۸۷ - وَصِی الاوصیاء:
از القاب امام زمان (علیه السلام) است؛ یعنی جانشین جانشینان، جانشین امامان (علیهم السلام) و آخرین آنان که این کسی جز امام زمان (علیه السلام) نیست.
چنان که در زیارت آن حضرت می خوانیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا وَصِی الْأَوْصِیآءِ الْماضِینَ»؛(۷۳۱)
«سلام بر تو ای وصی و جانشین امامان گذشته».
۴۸۸ - وَصِی الحسن:
«او» جانشین یازدهمین امام (علیه السلام) و آخرین جانشین پیامبر اعظم (صلی الله علیه وآله) است. امام علی (علیه السلام) فرموده اند:
«... وَصِی الْحَسَنِ بْنِ عَلِی الْقائِمِ بِالْقِسْطِ الْمُنْتَظَرِ الَّذِی یمْلَؤُها قِسْطاً وَعَدْلاً کَما مُلِئَتْ ظُلْماً وَجَوْراً...»؛(۷۳۲)
«جانشین امام حسن عسکری (علیه السلام) همان قیام کننده به قسط و عدل است، آن امام منتظری که زمین را از عدل و داد پر می کند. همان طور که از ظلم و ستم پر شده باشد».
۴۸۹ - وَصِی بن الاوصیاء:
از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است، چون «او» جانشین پیامبر، جانشین و فرزند جانشینان آن حضرت و فرزند آنان می باشد. از نسل آن حضرت و از اصلاب شامخه و ارحام مطهره است؛ چنان که در دعای استغاثه آمده است:
«سَلامُ الله الْکامِلُ التّآمُّ الشّامِلُ الْعآمُّ، وَصَلَواتُهُ الدّآئِمَهُ، وَبَرَکاتُهُ الْقآئِمَهُ التّآمَّهُ، عَلی حُجَّهِ اللهِ... الْوَصِی ابْنِ الْأَوْصِیآءِ الْمَرْضِیینَ»؛(۷۳۳)
«سلام کامل و تمام خداوند متعال و سلام عام و شامل و رحمت پیوسته و برکات پاینده و کامل بر حجت خدا... آن وصی فرزند اوصیای پیامبر که همه مورد رضایت و پسندیده اند».
۴۹۰ - وَعْدَ الله:
به معنای وعده خدا و از القاب امام زمان (علیه السلام) چون از ابتدای خلقت به تمام انبیایش و به تمام اوصیا و تمام خوبان وعده داده که روزی او را ظاهر خواهد کرد.
در مورد آیه شریفه «وَعَدَ الله الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصّالِحاتِ لَیسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ کَما اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَیمَکِّنَنَّ لَهُمْ دِینَهُمُ الَّذِی ارْتَضَی لَهُمْ وَلَیبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً یعْبُدُونَنِی لَا یشْرِکُونَ بِی شَیاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ هُمُ الْفسِقُونَ»؛(۷۳۴) از امامان (علیهم السلام) نقل شده که برای حضرت مهدی (علیه السلام) نازل شده است.(۷۳۵)
و سلام ما بر او باد:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا وَعْدَ الله الَّذِی ضَمِنَهُ»؛(۷۳۶)
«سلام بر تو ای وعده خدا که خود نیز آن را ضمانت کرده است».
وعده داده است تا او را به سلطنت الهی بر تمام عالم برساند و زمین را از ظلم و جور پاک کرده، از عدل و داد پر کند.(۷۳۷)
۴۹۱ - وِقایه الله:
از دیگر اوصاف امام زمان (علیه السلام) وقایه الله می باشد طبق بیان:
«یا وِقایهَ الله وَ سِتْرَهُ وَ بَرِکَتَهُ أَغْنِنِی اَدْنِنِی أَدْرِکْنِی صِلْنِی بِکَ وَ لا تَقْطَعْنِی»(۷۳۸)
«ای سپر خدا و ای پوشش و برکت او مرا به برکت او بی نیاز کن و به او نزدیک گردان و به حرز و پناه خدا مرا در برگیر و مرا به خود متصل نما و از خود جدانفرما.»
۴۹۲ - ولی:
یعنی سرپرست و اختیاردار، از القاب امام زمان (علیه السلام) است، «او» اختیاردار ماست، و ما به آن رضایت داریم:
«رَضِیتُکَ یا مَوْلای إِماماً وَهادِیاً، وَوَلِیاً وَمُرْشِداً»؛(۷۳۹)
«ای مولای من! به امامت و هدایت تو رضایت دارم، به ولایت تو راضی ام که ولی من و مرشد و رهبرم باشی».
«او» ولی مطلق است، ولی بر هر کسی و هر چیزی، و این مقام خدایی است.
«اَنْتَ... الْوَلِیّ الَّذِی لاتُدافَعُ»؛(۷۴۰)
«تویی آن ولی و پیشوایی که هیچ قدرتی تاب مقاومت در برابرت را ندارد».
۴۹۳ - ولی الاحکام:
یعنی کسی که عهده دار بیان احکام الهی است، خداوند تمام احکام خود را بر پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) نازل فرموده است و ایشان نیز تمام آن را به امامان و جانشینان پس از خود سپرده و اینک امام زمان (علیه السلام) است که «ولی الاحکام» می باشد.
و این نیز قسمتی از زیارت سرداب مقدّس:
«سَلامُ الله وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیاتُهُ وَصَلَواتُهُ عَلی مَوْلای صاحِبِ الزَّمانِ... وَوَلِیّ الأحْکام».(۷۴۱)
«سلام و برکات خداوند و درود و تحیات او بر مولای من صاحب الزمان،... است».
۴۹۴ - ولی الله:
یعنی سرپرست و اختیاردار همه امور از جانب خداوند متعال.
در اخبار و روایات زیادی این لقب برای امام زمان (علیه السلام) استعمال شده، اگرچه بر سایر امامان (علیهم السلام) نیز اطلاق می شود.
پیامبر اکرم (صلی الله علیه وآله) به امام علی (علیه السلام) فرموده اند:
«یا عَلِی إنَّ قائِمَنا إذا خَرَجَ یجْتَمِعُ إلَیهِ ثَلاثمِائَه وَثَلاثَه عَشَرَ رَجُلاً عَدَدَ رِجالِ بَدْرٍ فَإذا حَانَ وَقْتَ خُرُوجِهِ یکُونَ لَهُ سَیفُ مَغْمُودٌ نَادَاهُ السَّیفُ قُمْ یا وَلِی الله فَاقْتُلْ اَعْداءَ اللهِ»؛
«ای علی! آن گاه که قائم ما خروج کند، ۳۱۳ مرد به عدد مجاهدان بدر به گرد او جمع می شوند، هرگاه وقت خروج و ظهور آن حضرت برسد، برای او شمشیری است غلاف کرده که وی را ندا کند: ای ولی الله برخیز و دشمنان خدا را بکش».
پس بر او سلام می کنیم:
«اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا وَلِی اللهِ»؛(۷۴۲)
«سلام بر تو ای ولی خدا».
۴۹۵ - ولی المؤمنین:
به معنای سرپرست و امام ایمان آورندگان و خداپرستان، از اوصاف امام زمان (علیه السلام) است؛ پس درود بر او باد:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ حُجَّتِکَ فِی أَرْضِکَ، وَخَلِیفَتِکَ فِی بِلادِکَ، وَالدّاعِی إِلی سَبِیلِکَ، وَالْقآئِمِ بِقِسْطِکَ، وَالثّآئِرِ بِأَمْرِکَ، وَلِی الْمُؤْمِنِینَ»؛(۷۴۳)
«خدایا! درود فرست بر حجت خودت در زمین و جانشینت در شهرها، آن که به راه تو دعوت می کند، برای قسط و عدالت قیام می نماید و آن که به فرمان تو انتقام خواهد کشید، او که ولی و سرپرست مؤمنان است.»
۴۹۶ - ولی النّاصح:
امام زمان (علیه السلام) ولی ناصح و مهربان و مشفق مؤمنان و عموم مردمان است.
در دعای بعد از زیارت آل یاسین می خوانیم:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی... کَلِمَتِکَ التّآمَّهِ فِی أَرْضِکَ، الْمُرْتَقِبِ الْخآئِفِ وَالْوَلِی النّاصِحِ»؛(۷۴۴)
«خدایا درود فرست بر آن امامی که کلمه تامه توست در روی زمین، آن که نگران و مراقب و از ترس پنهان است، و آن ولی ناصح».
۴۹۷ - ولی امر:
به معنای سرپرست و زمامدار امور؛ از القاب ویژه امام زمان (علیه السلام) است.
و سلام بر چنین امامی:
«اَلسَّلامُ عَلی بَقِیهِ الله فِی بِلادِهِ... الْمُؤْتَمَنِ عَلَی السِّرِّ وَالْوَلِی لِلْأَمْرِ»؛(۷۴۵)
«سلام بر بقیه الله آن که حجت باقیه الهی است در روی زمین، آن که امین بر سرّ حقّ و ولی امر است».
«اَللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلی وَلِی أَمْرِکَ الْقآئِمِ الْمُؤَمَّلِ، وَالْعَدْلِ الْمُنْتَظَرِ»؛(۷۴۶)
«خدایا درود فرست بر ولی امر خودت، آن امام قائمی که آرزوی همگان است، او که عدل مجسم است که همه در انتظارش می باشند».
۴۹۸ - ولی عصر:
ولی عصر نیز از عناوینی است که بسیار برای امام زمان (علیه السلام) استفاده می شود و آن حضرت را با آن توصیف و مورد خطاب قرار می دهند و بسیار نیز متداول می باشد.
۴۹۹ - وهوه ل:
اسم امام زمان (علیه السلام) در تورات به عنوان وهوه ل آمده است. اسامی سایر ائمه (علیهم السلام) نیز چنین است:
۱ - شموعل ۲ - شماعیحوا ۳ - وهی هر ۴ - حی ابثوا ۵ - بمامدثیم ۶ - عوشود ۷ - بسنم ۸ - بولید ۹ - بشیرالعوی ۱۰ - فوم لوم کودود ۱۱ - عان لاندبود ۱۲ - وهوه ل.(۷۴۷)
۵۰۰ - هادِم الشّرک:
به معنای ویران کننده و بنیان کن، «او» ویران کننده بنیان هرچه ظلم و خلاف و شرک و کفر و نفاق است.
لذا در دعای ندبه می گوییم:
«أَینَ هادِمُ أَبْنِیهِ الشِّرْکِ وَالنِّفاقِ»؛(۷۴۸)
«کجاست آن که سازمان و بنای شرک و نفاق را ویران می کند؟»
۵۰۱ - هادی:
هادی به معنای هدایتگر و راهنماست.
امام باقر (علیه السلام) در مورد آیه «... إِنَّما أَنتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هادٍ»(۷۴۹) فرموده است:
«رَسُولُ الله الْمُنْذِرُ وَ لِکُلِّ زَمانٍ مِنّا هادٍ یهْدِیهِمْ اِلی ما جاءَ بِهِ نَبِی الله....»(۷۵۰)
«رسول الله (صلی الله علیه وآله) منذر و بیم دهنده است و برای هر زمانی یک هادی و امام از ماست که مردم را به آنچه رسول خدا (صلی الله علیه وآله) آورده هدایت خواهد نمود.»
در احادیث امامان (علیهم السلام) و دعاهای وارده از ایشان و در مفاتیح الجنان و غیره مکرر بیان شده و به آن تصریح شده که از القاب امام زمان (علیه السلام) «هادی» است.
«وَصَلِّ عَلَی الْخَلَفِ الْهادِی الْمَهْدِی، إِمامِ الْمُؤْمِنِینَ وَوارِثِ الْمُرْسَلِینَ وَحُجَّهِ رَبِّ الْعالَمِینَ»؛(۷۵۱)
«خدایا درود فرست بر آن جانشین شایسته و آن امام هادی و مهدی، آن که امام مؤمنان و وارث پیامبران و حجت پروردگار جهانیان است».
مرحوم حاج میرزا حسین نوری، از تاریخ جهضمی و غیره نیز نقل کرده است.(۷۵۲)
۵۰۲ - هادی معصوم:
از القاب امام زمان (علیه السلام) و به معنای هدایت کننده و رهبری که هیچ گونه خطا و غفلت و اشتباه و سهو و نسیانی ندارد؛ به عبارت دیگر معصوم است.
چنین شخصی، لیاقت امامت و خلافت الهی را دارد. و «او» چنین است اگرچه سایر امامان نیز بنابر نصّ آیه شریفه «إِنَّما یرِیدُ الله لِیذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَیطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً»(۷۵۳) معصوم می باشند.
پس بر او درود و سلام می فرستیم، با سلام و درود همه جانبه الهی:
«سَلامُ الله الْکامِلُ التّآمُّ الشّامِلُ الْعآمُّ، وَصَلَواتُهُ الدّآئِمَهُ، وَبَرَکاتُهُ الْقآئِمَهُ التّآمَّهُ، عَلی حُجَّهِ اللهِ... الْهادِی الْمَعْصُومِ ابْنِ الْأَئِمَّهِ الْهُداهِ الْمَعْصُومِینَ»؛(۷۵۴)
«سلام کامل و تمام خداوند متعال، سلام عام و شامل مراتب کمال و رحمتی پیوسته و برکاتی پاینده
و کامل بر حجت خدا،... آن هدایت گر معصوم فرزند امامان هدایت گر و معصوم است».
۵۰۳ - یدُ الباسِطه:
در کتاب دلائل الامامه و هدایه این عنوان را از القاب خاصّه حضرت صاحب الزمان (علیه السلام) دانسته اند.
یدالباسطه به معنای دست قدرت و نعمت خداوندی است که رحمت و لطف خود را بر تمام بندگان می گستراند و بلاها را از ایشان دفع می کند.(۷۵۵)
۵۰۴ - یعْسُوبُ الدّین:
از دیگر القاب امام زمان (علیه السلام) یعسوب الدین است، به معنای پیشوا و جلودار دین می باشد. و روایت از امام امیرالمؤمنین (علیه السلام) است که فرموده اند:
مردم پیوسته در نقصان اند تا آن که حتی نام الله هم گفته نمی شود. هرگاه چنین شد ثابت می ماند یعسوب الدین با اتباعش. پس خداوند گروهی را از اطراف زمین مبعوث می فرماید که مانند ابرهای تُنگ پاییز می آیند.(۷۵۶)
سید رضی نیز در نهج البلاغه این قسمت را نقل کرده:
«فَإِذا کانَ ذلِکَ ضَرَبَ یعْسُوبُ الدِّینِ بِذَنَبِهِ فَیجْتَمِعُونَ إلَیهِ کَما یجْتَمِعُ قَزعُ الخَرِیفِ»؛(۷۵۷)
«پس هرگاه چنین شد، یعسوب الدین (پیشوای دین) یاران خود را ندا می دهد، آنان نیز همانند ابر بهاری دور او حلقه می زنند».
۵۰۵ - یعْسُوبُ الْمُتّقین:
از القاب امام زمان (علیه السلام) و به معنای امام و رهبر و پیشوای پرهیزکاران است، چنان که در دعا برای ایشان می گوییم:
«أَنْتَ نِظامُ الدِّینِ، وَیعْسُوبُ الْمُتَّقِینَ»؛(۷۵۸)
«تو نظام بخش و سامان دهنده دین و پیشوای متقین هستی».
۵۰۶ - یمین:
به معنای قسم، و سوگند است که در هدایه الکبری از القاب امام زمان (علیه السلام) شمرده شده است.(۷۵۹)
۵۰۷ - یوسف زهرا:
این لقب در بسیاری از کلمات و شعرها و مدیحه سرایی ها به کار می رود؛ چون او فرزند فاطمه زهراست؛ طبق حدیث پیامبر(صلی الله علیه وآله) به حضرت زهرا(علیها السلام):
«وَ الَّذِی نَفْسِی بِیدِهِ لابُدَّ لِهذِهِ الأُمَّهِ مِنْ مَهْدِیّ وَ هُوَ وَ الله مِنْ وُلْدِکِ»؛(۷۶۰)
«سوگند به آن که جانم در دست اوست! حتماً برای این امّت «مهدی» خواهد بود، به خدا قسم که او از فرزندان تو می باشد.»
۵۰۸ - یوم الدّین:
امام باقر (علیه السلام) در مورد آیه «وَالَّذِینَ یصَدِّقُونَ بِیوْمِ الدِّینِ»(۷۶۱) فرمود: مقصود روز ظهور قائم (علیه السلام) است.
۵۰۹ - یوم الموعود:
یکی دیگر از القاب و اوصاف امام زمان (علیه السلام) یوم موعود است، چنان که در این زیارت آمده است:
«وَأَتَوَسَّلُ إِلَیکَ یا رَبِّ بِإِمامِنا وَمُحَقِّقِ زَمانِنا، اَلْیوْمِ الْمَوْعُودِ... »؛(۷۶۲)
«خدایا تقرب و توسل می جویم به سوی تو ای پروردگارم به وسیله امام و پیشوای ما که نگهبان حقّ است در زمان ما تا روز موعود که ظهورش فرا رسد...».
۵۱۰ -........... !؟
امام زمان (علیه السلام) خوب خوب ها و فرزند بهترین انسان ها است هرچه از او بگوییم کم گفته ایم، اوصاف آن حضرت به ۵۱۰ رسیده است اما یقیناً هنوز هیچ نگفته ایم به قول شاعر:
مجلس تمام گشت و به آخر رسید عمر
ما همچنان در اول وصف تو مانده ایم با این حال چند عنوان دیگر از اوصاف آن حضرت را که در دعای ندبه آمده با هم زمزمه نموده و قربان صدقه ایشان می رویم:
بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی وَنَفْسِی لَکَ الْوِقآءُ وَالْحِمی یا بْنَ السّادَهِ الْمُقَرَّبِینَ، یا بْنَ النُّجَبآءِ الْأَکْرَمِینَ، یا بْنَ الْهُداهِ الْمَهْدِیینَ، یا بْنَ الْخِیرَهِ الْمُهَذَّبِینَ، یا بْنَ الْغَطارِفَهِ الْأَنْجَبِینَ، یا بْنَ الْأَطآئِبِ الْمُطَهَّرِینَ، یا بْنَ الْخَضارِمَهِ الْمُنْتَجَبِینَ، یا بْنَ الْقَماقِمَهِ الْأَکْرَمِینَ، یا بْنَ الْبُدُورِ الْمُنِیرَهِ، یا بْنَ السُّرُجِ الْمُضِیئَهِ، یا بْنَ الشُّهُبِ الثّاقِبَهِ، یا بْنَ الْأَنْجُمِ الزّاهِرَهِ، یا بْنَ السُّبُلِ الْواضِحَهِ، یا بْنَ الْأَعْلامِ اللّائِحَهِ، یا بْنَ الْعُلُومِ الْکامِلَهِ، یا بْنَ السُّنَنِ الْمَشْهُورَهِ، یا بْنَ الْمَعالِمِ الْمَأْثُورَهِ، یا بْنَ الْمُعْجِزاتِ الْمَوْجُودَهِ، یا بْنَ الدَّلآئِلِ الْمَشْهُودَهِ، یا بْنَ الصِّراطِ الْمُسْتَقِیمِ، یا بْنَ النَّبَأِ الْعَظِیمِ، یا بْنَ مَنْ هُوَ فِی أُمِّ الْکِتابِ لَدَی الله عَلِی حَکِیمٌ، یا بْنَ الْآیاتِ وَالْبَیناتِ، یا بْنَ الدَّلآئِلِ الظّاهِراتِ، یا بْنَ الْبَراهِینِ الْواضِحاتِ الْباهِراتِ، یا بْنَ الْحُجَجِ الْبالِغاتِ، یا بْنَ النِّعَمِ السّابِغاتِ، یا بْنَ طه وَالْمُحْکَماتِ، یا بْنَ یس وَالذّارِیاتِ، یا بْنَ الطُّورِ وَالْعادِیاتِ، یا بْنَ مَنْ دَنی فَتَدَلّی
فَکانَ قابَ قَوْسَینِ أَوْ أَدْنی دُنُوّاً وَاقْتِراباً مِنَ الْعَلِی الْأَعْلی...(۷۶۳)

پاورقی:

-----------------

(۱) خصوصاً پس از گردآوری و چاپ کتاب چهل حدیث «مهدی موعود در کلام پیامبر محمود» که توسط انتشارات مسجد مقدّس جمکران منتشر گردید، متوجه این موضوع شدم.
(۲) سوره شعراء، آیه ۴.
(۳) بحار الانوار، ج۵۱، ص۴۸.
(۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۱.
(۵) وسائل الشیعه، ج۱۱، ص۴۴۳.
(۶) کمال الدین، ج۱، ص۵۳۴.
(۷) و (به یاد آورید) هنگامی را که عیسی بن مریم گفت: «ای بنی اسرائیل! من فرستاده خدا به سوی شما هستم در حالی که تصدیق کننده کتابی که قبل از من فرستاده شده [= تورات] می باشم، و بشارت دهنده به رسولی که بعد از من می آید و نام او احمد است!» هنگامی که او [= احمد] با معجزات و دلایل روشن به سراغ آنان آمد، گفتند: «این سحری است آشکار»! سوره صف، آیه ۶.
۸) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۹) بحار الانوار، ج۹۱، ص۳۱.
۱۰) مفاتیح الجنان، زیارت وارث.
۱۱) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه.
۱۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۷.
۱۳) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه.
۱۴) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۱۵) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۱۶) بحار الانوار، ج۵۱، ص۷۹.
۱۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۱۸) کمال الدین، ج۱، ص۵۳۴.
۱۹) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۲۰) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین.
۲۱) مفاتیح الجنان، دعای عهد.
۲۲) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۲۳) بحار الانوار، ج۵۰، ص۲۱؛ ج۵۱، ص۳۶ و ۱۱۰ و ۱۲۱ و....
۲۴) بحار الانوار، ج۵۱، ص۷۳.
۲۵) بحار الانوار، چ ۵۱، ص۴۳.
۲۶) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۲۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۲.
۲۸) کمال الدین، ص۲۸۶ / بحار الانوار، ج۵۱، ص۷۲ / نجم الثاقب، ج۱، ص۸۹.
۲۹) به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۹۲.
۳۰) عبقری الحسان، ص۱۵۱.
۳۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۰.
۳۲) بحار الانوار، ج۵۱، ص۸۱ / نجم الثاقب، ج۱، ص۹۰.
۳۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۲.
۳۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۲ / عبقری الحسان، ص۲۶۰.
۳۵) و (به یاد آورید) هنگامی را که عیسی بن مریم گفت: «ای بنی اسرائیل! من فرستاده خدا به سوی شما هستم در حالی که تصدیق کننده کتابی که قبل از من فرستاده شده [= تورات] می باشم، و بشارت دهنده به رسولی که بعد از من می آید و نام او احمد است!»....
۳۶) عبقری الحسان، ص۱۵۰.
۳۷) کمال الدین، ص۶۵۳.
۳۸) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۲.
۳۹) بحار الانوار، ج۹۵، ص۳۷.
۴۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۸۶.
۴۱) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه.
۴۲) مفاتیح الجنان، زیارت سرّ من رأی.
۴۳) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۴۴) بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۲۹.
۴۵) بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۲۶؛ اصول کافی،ج ۱، ص۵۳۴.
۴۶) مفاتیح الجنان، زیارت ائمه سرّ من رأی.
۴۷) بحار الانوار، ج۹۸، ص۳۷۳.
۴۸) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه.
۴۹) مفاتیح الجنان، دعای عدیله.
۵۰) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۲.
۵۱) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۵۲) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۵۳) بحار الانوار، ج۵۲، ص۹۲.
۵۴) سوره نحل، آیه ۱.
۵۵) کمال الدین، ج۲، ص۶۷۱.
۵۶) بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۳۶.
۵۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۲ / بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۳۶ / عبقری الحسان، ص۱۵۲.
۵۸) فوز اکبر؛ به نقل از نام نامه مهدی.
۵۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۸۸.
۶۰) سوره لقمان، آیه ۲۰.
۶۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۸۹.
۶۲) عبقری الحسان، ص۱۵۲.
۶۳) به نقل از نجم الثاقب، ج، ۱، ص۸۹.
۶۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۸۸.
۶۵) بحار الانوار، ج۱۰۲، ص۸۵.
۶۶) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین.
۶۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۶۸) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۶۹) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۳.
۷۰) عبقری الحسان، ج۱، ص۳۲.
۷۱) بحار الانوار، ج۵۱، ص۶۱ / نجم الثاقب، ج۱، ص۹۵.
۷۲) فوز اکبر، ص۱۵۲ - ۱۶۲ به نقل از نام نامه مهدی.
۷۳) سوره حج، آیه ۴۵.
۷۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۳/بحار الانوار، ج۲۴، ص۱۰۱/تأویل الآیات، ص۳۴۰ / تفسیر قمی، ج۲، ص۸۵.
۷۵) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۷۶) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۳، ۱۰۱ و ۱۲۰.
۷۷) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۵.
۷۸) تذکره، ص۱۸۴ / به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۹۵.
۷۹) سوره هود، آیه ۸۶.
۸۰) بحار الانوار، ج۴۲، ص۷۹ / نجم الثاقب، ج۱، ص۹۳ / اصول کافی، ج۱، ص۴۱۱ / بحار الانوار، ج۲۴، ص۲۱۱.
۸۱) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۸۲) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۸۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۳ / بحار الانوار، ج۹۱، ص۲.
۸۴) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین.
۸۵) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۸۶) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۶.
۸۷) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۸۱.
۸۸) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۹۳.
۸۹) به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۹۴.
۹۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۶.
۹۱) مفاتیح الجنان، دعای بعد از زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۹۲) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۲.
۹۳) تذکره الائمه، ص۱۸۴ / نجم الثاقب، ج۱، ص۹۴.
۹۴) تذکره الائمه، ص۱۸۴ / نجم الثاقب، ج۱، ص۹۴.
۹۵) به نقل از آخرین امید.
۹۶) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین.
۹۷) بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۹۸) بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۵ / کمال الدین، ص۶۵۳.
۹۹) سوره نحل، آیه ۴۴.
۱۰۰) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۹۱، ص۳۶.
۱۰۱) مفاتیح الجنان، دعا برای امام زمان / بحار الانوار، ج۹۲، ص۳۳۲ / تهذیب، ج۶، ص۸۶.
۱۰۲) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۸.
۱۰۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۷ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۱۰۴) بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۱۷.
۱۰۵) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۱۰۶) مفاتیح الجنان، دعای بعد از زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۹۱، ص۴.
۱۰۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۱۰۸) مفاتیح الجنان، زیارت ائمه سرّ من رأی / بحار الانوار، ج۹۹، ص۶۷.
۱۰۹) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۶.
۱۱۰) عبقری الحسان.
۱۱۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۹.
۱۱۲) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۱۱۳) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۱۱۴) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۱۱۵) مفاتیح الجنان، دعا برای حضرت امام زمان / بحار الانوار، ج۹۲، ص۳۳۰.
۱۱۶) کمال الدین، ص۴۳۲ / به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۹۸.
۱۱۷) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۵.
۱۱۸) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۱۱۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۹.
۱۲۰) عبقری الحسان، ص۱۰۳.
۱۲۱) افسوس بر من از کوتاهی هایی که در اطاعت فرمان خدا کردم» سوره زمر، آیه ۵۶.
۱۲۲) هدایه الکبری، ص۳۲۸ / به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۹۹.
۱۲۳) کمال الدین، ج۱ / بحار الانوار، ج۲۶.
۱۲۴) بحار الانوار، ج۴، ص۸.
۱۲۵) سوره تکویر، آیه ۱۵ و ۱۶.
۱۲۶) کمال الدین، ص۳۲۵ / غیبت طوسی، ص۱۵۹ / غیبت نعمانی، ص۱۵۰.
۱۲۷) به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۲.
۱۲۸) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۱۲۹) فوز اکبر، ص۱۵۹.
۱۳۰) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر/ بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۱۳۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۲.
۱۳۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۸.
۱۳۳) فوز اکبر، به نقل از نام نامه مهدی.
۱۳۴) کمال الدین، ص۳۸۱ / غیبت طوسی، ص۲۰۲ / به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۰.
۱۳۵) مفاتیح الجنان، دعای توسل.
۱۳۶) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۱۳۷) کمال الدین، ج۲، ص۳۴۰.
۱۳۸) بحار الانوار، ج۳۶، ص۳۵۷.
۱۳۹) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۱۴۰) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۱۴۱) بحار الانوار، ج۹۸، ص۳۷۴.
۱۴۲) بحار الانوار، ج۹۷، ص۳۴۳.
۱۴۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۱ / بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۲۷.
۱۴۴) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۱۴۵) مفاتیح الجنان، زیارت جمعه.
۱۴۶) مفاتیح الجنان، دعای توسل.
۱۴۷) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه، زیارت آل یاسین.
۱۴۸) مفاتیح الجنان، دعای یاسین، زیارت صاحب الامر.
۱۴۹) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۱۵۰) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۱۵۱) بحار الانوار، ج۹۸، ص۳۵۴.
۱۵۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۳.
۱۵۳) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۱۵۴) سوره اسراء، آیه ۸۱.
۱۵۵) اصول کافی، ج۸، ص۲۸۷.
۱۵۶) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۱۵۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۱۵۸) بلد الامین، ص۱۸۷.
۱۵۹) الهدایه الکبری، ص۳۲۸ / به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۲.
۱۶۰) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۱۶۱) سوره شعرا، آیه ۲۱.
۱۶۲) کمال الدین، ج۱، ص۳۲۸.
۱۶۳) مفاتیح الجنان، زیارت روز جمعه / دعای استغاثه.
۱۶۴) جنات الخلود / کمال الدین، ص۲۲ / روضه الواعظین، ص۹۷ / نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۳.
۱۶۵) بحار الانوار، ج۳۷، ص۲۱۳.
۱۶۶) کشف الغمه، ج۲، ص۴۹۹ / غیبت شیخ طوسی، ص۲۴۹ / بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰ / نجم الثاقب، ص۱۰۳.
۱۶۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۴ / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۱۶۸) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۳.
۱۶۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۴.
۱۷۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۴.
۱۷۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۵.
۱۷۲) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۱۷۳) مفاتیح الجنان، دعای توسل و دعای افتتاح.
۱۷۴) مفاتیح الجنان، زیارت ائمه سرّ من رأی / بحار الانوار، ج۹۸، ص۲۱۶.
۱۷۵) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۱۷۶) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۱۷۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۱۷۸) بحار الانوار، ج۵۱، ص۲۳.
۱۷۹) تاریخ موالید ائمه، ص۴۵ / به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۵.
۱۸۰) مفاتیح الجنان، زیارت ائمه سرّ من رأی.
۱۸۱) کشف الغمه، ج۳، ص۴۷۰ / نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۷ / بحار الانوار، ج۵۱، ص۸۱.
۱۸۲) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۱۸۳) مفاتیح الجنان، دعای بعد از زیارت آل یاسین و زیارت صاحب الامر.
۱۸۴) مشارق انوار الیقین، ص۱۵۷ / به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۹۷.
۱۸۵) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۵.
۱۸۶) سوره توبه، آیه ۱۲۸.
۱۸۷) سوره تکویر، آیه ۱۵.
۱۸۸) کمال الدین و تمام النعمه / غیبت نعمانی، ص۱۵۰ / غیبت شیخ طوسی / نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۶ / اصول کافی، ج۱، ص۳۴۱.
۱۸۹) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۱۹۰) فوز اکبر، به نقل از نام نامه مهدی.
۱۹۱) الاحتجاج، ج۲، ص۴۹۴.
۱۹۲) بحار الانوار، ج۲۶، ص۲۶۹.
۱۹۳) الهدایه الکبری / به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۷.
۱۹۴) بحار الانوار، ج۱۴، ص۳۳.
۱۹۵) سوره نمل، آیه ۸۲.
۱۹۶) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین.
۱۹۷) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه / بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۱.
۱۹۸) مفاتیح الجنان، دعای افتتاح.
۱۹۹) مفاتیح الجنان، دعای بعد از زیارت آل یاسین.
۲۰۰) کشف الغمه، ج۲، ص۴۹۹ / غیبت طوسی، ص۲۴۹ / بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰ / نجم الثاقب، ص۱۰۳.
۲۰۱) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۲۰۲) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین.
۲۰۳) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / الاحتجاج، ج۲، ص۴۹۲ / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۲۰۴) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۲۰۵) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۳.
۲۰۶) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۲ / فوز اکبر به نقل نام نامه مهدی.
۲۰۷) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / الاقبال، ص۲۹۷.
۲۰۸) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / الاقبال، ص۲۹۷.
۲۰۹) بلد الامین، ص۱۸۷.
۲۱۰) فوز اکبر به نقل از نام نامه مهدی.
۲۱۱) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۹۱.
۲۱۲) از کتاب ذخیره وتذکره به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۸.
۲۱۳) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / احتجاج، ج۲، ص۴۹۲ / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۲۱۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۹.
۲۱۵) سوره زمر، آیه ۶۹.
۲۱۶) بحار الانوار، ج۷، ص۳۲۶.
۲۱۷) بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۳۷.
۲۱۸) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۲۱۹) فوز اکبر به نقل از نام نامه مهدی.
۲۲۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۸.
۲۲۱) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۳۸.
۲۲۲) سوره اعراف، آیه ۴۶.
۲۲۳) ینابیع الموده، ص۱۰۲.
۲۲۴) بحار الانوار، ج۸، ص۳۳۹.
۲۲۵) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۹۱، ص۲ / احتجاج، ج۲، ص۴۹۲.
۲۲۶) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۲۲۷) مفاتیح الجنان، دعا برای امام زمان / بحار الانوار، ج۹۲، ص۳۳۳.
۲۲۸) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۲۲۹) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۲۳۰) مفاتیح الجنان، دعا برای امام زمان / بلدالامین، ص۸۱.
۲۳۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۹.
۲۳۲) بحار الانوار، ج۱۰۲.
۲۳۳) سوره اعراف، آیه ۱۸۷.
۲۳۴) عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۲۶۵.
۲۳۵) بحار الانوار، ج۵۳ / نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۰.
۲۳۶) سوره زخرف، آیه ۸۵.
۲۳۷) سوره زخرف، آیه ۶۶.
۲۳۸) سوره اعراف، آیه ۱۸۷.
۲۳۹) سوره ابراهیم، آیه ۵.
۲۴۰) بحار الانوار / الخصال شیخ صدوق.
۲۴۱) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۲۴۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۲۴۳) سوره حجر، آیه ۸۷.
۲۴۴) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۰ / بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۸.
۲۴۵) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۵.
۲۴۶) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۰.
۲۴۷) وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَهً أُخْرَی عِندَ سِدْرَهِ الْمُنتَهَی عِندَها جَنَّهُ الْمَأْوَی
۲۴۸) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۲۴۹) فوز اکبر به نقل از نام نامه مهدی.
۲۵۰) مفاتیح الجنان، زیارت نامه حضرت معصومه و سایر زیارت نامه ها.
۲۵۱) مفاتیح الجنان، زیارت والده امام زمان (علیهما السلام).
۲۵۲) بحار الانوار، ج۵۱، ص۷۳.
۲۵۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۹.
۲۵۴) مفاتیح الجنان، زیارت حضرت صاحب الامر.
۲۵۵) مفاتیح الجنان، زیارت روز جمعه / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱ و ج۹۱، ص۴.
۲۵۶) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه / بحار الانوار، ج۹۱، ص۳۱ و ج۹۹، ص۹۷ / البلد الامین، ص۱۵۸.
۲۵۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۲.
۲۵۸) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۰.
۲۵۹) بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۶ / غیبت طوسی، ص۲۷۳.
۲۶۰) عبقری الحسان، ص۱۱۳.
۲۶۱) فوز اکبر، به نقل از نام نامه مهدی.
۲۶۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۰۱.
۲۶۳) بحار الانوار،ج ۵۳، ص۸۹.
۲۶۴) مفاتیح الجنان، دعای توسل.
۲۶۵) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۲۶۶) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بلدالامین، ص۲۸۶ / مصباح کفعمی، ص
۴۹۷ / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۲۶۷) الاقبال، ص۷۰۵.
۲۶۸) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶ / مصباح المجتهد، ص۴۹۵.
۲۶۹) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۲۷۰) مفاتیح الجنان، زیارت ائمه سرّ من رأی / بحار الانوار، ج۹۹، ص۶۹.
۲۷۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۲.
۲۷۲) اصول کافی، ج۱، ص۳۲۲.
۲۷۳) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۱۰.
۲۷۴) بحار الانوار، ج۹۸، ص۳۵۴.
۲۷۵) کتاب شریف کمال الدین، ج۲، ص۵۱۳ / بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۰.
۲۷۶) به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۲.
۲۷۷) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۲۷۸) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۲۷۹) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۳.
۲۸۰) کمال الدین، ج۱، ص۲۸۶.
۲۸۱) کتاب شریف کمال الدین، ج۲، ص۵۱۳ / بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۰.
۲۸۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۳.
۲۸۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۶.
۲۸۴) بحار الانوار، ج۹۷، ص۳۰۴.
۲۸۵) بحار الانوار، ج۵۱، ص۴۹ و ج۵۲، ص۱۷۹.
۲۸۶) بحار الانوار، ج۵۳، ص۲۸۲.
۲۸۷) بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۵۰.
۲۸۸) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۵.
۲۸۹) دلائل الامامه، ص۲۷۲.
۲۹۰) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۲۹۱) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۲۹۲) بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۷.
۲۹۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۴.
۲۹۴) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۲۹۵) بحار الانوار، ج۵۱، ص۴۳.
۲۹۶) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۲۹۷) بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۶.
۲۹۸) اصول کافی، ج۱، ص۵۳۶.
۲۹۹) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۳۰۰) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۳۰۱) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۳ / مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۳۰۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۳.
۳۰۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۵.
۳۰۴) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۸۱.
۳۰۵) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۳۰۶) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۴.
۳۰۷) اصول کافی، ج۱، ص۳۲۲.
۳۰۸) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۳۰۹) به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۹۶.
۳۱۰) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۳۱۱) نجم الثاقب به نقل از کفعمی.
۳۱۲) بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۱۷.
۳۱۳) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۳۱۴) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶ / مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۳۱۵) سوره توبه، آیه ۱۱۹.
۳۱۶) سلیم بن قیس، ص۱۸۹؛ به نقل از سیمای مهدی در قرآن.
۳۱۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۵.
۳۱۸) بحار الانوار، ج۵۱، ص۴۳.
۳۱۹) سوره انبیا، آیه ۱۰۵.
۳۲۰) و (قسم) به صبح هنگامی که چهره بگشاید. سوره مدثر، آیه ۳۴.
۳۲۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۶.
۳۲۲) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / الاقبال، ص۲۹۷.
۳۲۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۶ / دلائل الامامه، ص۲۷۲.
۳۲۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۶.
۳۲۵) به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۶.
۳۲۶) سوره شمس، آیه ۱.
۳۲۷) به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۷.
۳۲۸) فوز اکبر، به نقل از نام نامه مهدی.
۳۲۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۷.
۳۳۰) مفاتیح الجنان، زیارت سر من رأی.
۳۳۱) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۳۳۲) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۳۳۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۷.
۳۳۴) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۳۳۵) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۰۳.
۳۳۶) سوره احزاب، آیه ۳۳.
۳۳۷) مفاتیح الجنان، دعای برای امام زمان / کمال الدین، ج۲، ص۵۱۳.
۳۳۸) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۷.
۳۳۹) اصول کافی، ج۱، ص۳۲۲.
۳۴۰) مفاتیح الجنان، دعای عهد / بحار الانوار، ج۵۳، ص۹۵.
۳۴۱) بحار الانوار، ج۵۲، صفحات: ۴۲- ۳۲ - ۹ - ۲.
۳۴۲) مفاتیح الجنان، زیارت ائمه سرّ من رأی / بحار الانوار، ج۹۹، ص۶۷.
۳۴۳) به نقل از فوز اکبر.
۳۴۴) به نقل از فوز اکبر.
۳۴۵) بلدالامین، ص۸۱.
۳۴۶) مفاتیح الجنان، دعا برای امام زمان.
۳۴۷) مصباح المجتهد، ص۴۰۹.
۳۴۸) مفاتیح الجنان، دعا برای امام زمان.
۳۴۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۸.
۳۵۰) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۳۵۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۷.
۳۵۲) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۳۵۳) غیبت شیخ طوسی، ص۴۵۴.
۳۵۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۸.
۳۵۵) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۳۵۶) مفاتیح الجنان، دعای افتتاح / تهذیب، ج۳، ص۱۱۰.
۳۵۷) سوره سجده، آیه ۲۱.
۳۵۸) اثبات الهداه، ج۳، ص۵۶۴؛ به نقل از سیمای مهدی در قرآن.
۳۵۹) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۸.
۳۶۰) سوره نساء، آیه ۱۳۹.
۳۶۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۸.
۳۶۲) بحار الانوار، ج۹۱، ص۳۱.
۳۶۳) فوز اکبر، به نقل از نام نامه مهدی.
۳۶۴) سوره لقمان، آیه ۲۷.
۳۶۵) سوره نساء، آیه ۱۳۹.
۳۶۶) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۸.
۳۶۷) سوره نحل، آیه ۱۶.
۳۶۸) مجمع البیان ذیل آیه، به نقل از سیمای مهدی در قرآن.
۳۶۹) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / احتجاج، ج۲، ص۴۹۲.
۳۷۰) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۳۷۱) بلد الامین، ص۱۸۷.
۳۷۲) مفاتیح الجنان، دعای بعد از زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۳۷۳) مفاتیح الجنان، دعای جوشن کبیر.
۳۷۴) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۳۷۵) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۳۷۶) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۳۷۷) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۱۵.
۳۷۸) و بگو: «عمل کنید! خداوند و فرستاده او و مؤمنان، اعمال شما را می بینند! و به زودی، به سوی دانای نهان و آشکار، بازگردانده می شوید؛ و شما را به آنچه عمل می کردید، خبر می دهد!» سوره توبه، آیه ۱۰۵.
۳۷۹) مفاتیح الجنان، دعا برای امام زمان / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۲.
۳۸۰) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۱۵.
۳۸۱) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۵۱.
۳۸۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۹۱.
۳۸۳) مفاتیح الجنان، صلوات برای حضرت / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۳۸۴) سوره غاشیه، آیه ۱.
۳۸۵) بحار الانوار، ج۵۱، ص۵۰.
۳۸۶) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۰ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۳۸۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۰ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۳۸۸) بحار الانوار، ج۵۴، ص۲۱۲.
۳۸۹) مفاتیح الجنان، دعای عهد / بحار الانوار، ج۵۳، ص۹۵.
۳۹۰) امام صادق (علیه السلام) فرمودند:للقائم غیبتان، یشهد فی احداهما المواسم یری الناس و لایرونه؛ برای امام قائم دو غیبت است که در یکی از آن ها (یعنی در غیبت کبرا) در موسم حجّ شرکت می کند و مردم را می بیند امّا آنان امام را نمی بینند. اصول کافی، ج۱، ص۳۳۷. و نایب خاص آن حضرت فرموده است: به خدا قسم که صاحب این امر (امام زمان (علیه السلام)) هر سال در موسم حجّ حاضر می شود، مردم را می بیند و می شناسد؛ امّا آنان حضرت را می بینند و نمی شناسند. بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۵۱.
۳۹۱) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۵۱.
۳۹۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۹.
۳۹۳) بحار الانوار، ج۵۱، ص۲۹۴.
۳۹۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۹.
۳۹۵) بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۳.
۳۹۶) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۰.
۳۹۷) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۸.
۳۹۸) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۰.
۳۹۹) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۴۰۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۶.
۴۰۱) سوره بقره، آیه ۱ - ۳.
۴۰۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۱۹ / کمال الدین، ج۲، ص۳۴۰.
۴۰۳) سوره یونس آیه ۲۰.
۴۰۴) ینابیع الموده، ص۵۰۸.
۴۰۵) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۴۰۶) مفاتیح الجنان، زیارت جامعه کبیره.
۴۰۷) بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۲۶.
۴۰۸) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۴۰۹) به نقل از کتاب فوز اکبر.
۴۱۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۲.
۴۱۱) هنگامی که یاری خدا و پیروزی فرارسد، سوره نصر، آیه ۱.
۴۱۲) آیه ۱۳ سوره صف نیز به آن حضرت تأویل شده است. بحار الانوار، ج۵۱، ص۴۹.
۴۱۳) سوره فجر، آیه ۱.
۴۱۴) سوره قدر، آیه ۵.
۴۱۵) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۰ / تأویل الآیات، ص۷۶۶ و ۷۹۱.
۴۱۶) تلخیص از عبقری الحسان، ص۱۳۰.
۴۱۷) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۵۹.
۴۱۸) غیبت نعمانی، ص۲۵۳.
۴۱۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۱.
۴۲۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۱ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۴۲۱) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۴۲۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۱.
۴۲۳) بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۷.
۴۲۴) به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۱.
۴۲۵) کمال الدین، ج۱، ص۳۰۳.
۴۲۶) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۲۰ / غیبت نعمانی، ص۱۷۸.
۴۲۷) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۶.
۴۲۸) فوز اکبر به نقل از نام نامه مهدی.
۴۲۹) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۱۰.
۴۳۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۲.
۴۳۱) تهذیب الاحکام، ج۱، ص۱۳۱.
۴۳۲) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۳.
۴۳۳) به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۴.
۴۳۴) المناقب، ج۱، ص۳۰۱.
۴۳۵) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۱.
۴۳۶) بحار الانوار، ج۵۱، ص۷۳.
۴۳۷) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۵۱.
۴۳۸) به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۷.
۴۳۹) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۴۴۰) بحار الانوار، ج۳۴، ص۱۷۶.
۴۴۱) بحار الانوار، ج۵۲، ص۴۰.
۴۴۲) کمال الدین و تمام النعمه، ج۲، ص۴۴۴ / غیبت شیخ طوسی، ص۲۵۲.
۴۴۳) بحار الانوار، ج۵، ص۲۱.
۴۴۴) مفاتیح الجنان، دعای عهد / بحار الانوار، ج۵۳، ص۹۵ / بلدالامین، ص۸۲.
۴۴۵) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۴۴۶) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۴۴۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۹.
۴۴۸) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۲ / بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۳۶ / عبقری الحسان، ص۱۵۲.
۴۴۹) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۴۵۰) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۴۵۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۱.
۴۵۲) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۴۵۳) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۴۵۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۹.
۴۵۵) سوره حجّ، آیه ۴۵.
۴۵۶) تأویل الآیات، ص۳۴۰ / تفسیر قمی، ج۲، ص۸۵.
۴۵۷) مفاتیح الجنان، دعای عدیله.
۴۵۸) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۰.
۴۵۹) بحار الانوار، ج۵۳، ص۲۰۰.
۴۶۰) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۴۶۱) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۸.
۴۶۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۰.
۴۶۳) ای کاش در برابر شما قدرتی داشتم.... سوره هود، آیه ۸۰.
۴۶۴) بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۲۷.
۴۶۵) بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۵۳.
۴۶۶) بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۴۲.
۴۶۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۲۹.
۴۶۸) مفاتیح الجنان، دعای عدیله.
۴۶۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۱ / بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۰۷.
۴۷۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۲.
۴۷۱) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۴۷۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۱ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۴۷۳) فوز اکبر به نقل از نام نامه مهدی.
۴۷۴) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۴۷۵) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۴۷۶) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۱۵.
۴۷۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۴۷۸) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۴۷۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۱.
۴۸۰) بحار الانوار، ج۳۶، ص۳۴۸.
۴۸۱) مفاتیح الجنان، زیارت امین الله؛ بحار الانوار، ج۹۷، ص۲۶۴.
۴۸۲) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۴۸۳) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۴۸۴) سوره زخرف: ۲۸»
۴۸۵) کمال الدین، ج۱، ص۳۲۳.
۴۸۶) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۱.
۴۸۷) بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۴۳.
۴۸۸) بحار الانوار، ج۵۳، ص۲۰۰.
۴۸۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۲.
۴۹۰) مفاتیح الجنان، صلوات شعبانیه.
۴۹۱) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۴۹۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۱.
۴۹۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۲ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۴۹۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۳.
۴۹۵) بحار الانوار، ج۳۶، ص۳۴۸.
۴۹۶) بحار الانوار، ج۲۶، ص۲۴۶.
۴۹۷) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۸.
۴۹۸) مفاتیح الجنان، دعا برای حضرت امام زمان.
۴۹۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۲.
۵۰۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۲.
۵۰۱) بگو: «به من خبر دهید اگر آب های (سرزمین) شما در زمین فرو رود، چه کسی می تواند آب جاری و گوارا در دسترس شما قرار دهد؟!» سوره ملک، آیه ۳۰.
۵۰۲) کمال الدین، ج۲، ص۳۷۰ / غیبت طوسی، ص۱۵۸.
۵۰۳) عبقری الحسان.
۵۰۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۳.
۵۰۵) حج:۴۱»
۵۰۶) تأویل الآیات، ج۱، ص۳۴۳؛ به نقل از سیمای مهدی در قرآن.
۵۰۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۹.
۵۰۸) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۱۱ و ۲۱۵.
۵۰۹) غیبت نعمانی، ص۲۷۴.
۵۱۰) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین؛ بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱ و ج۹۹، ص۹۴.
۵۱۱) مفاتح الجنان، زیارت آل یاسین؛ بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۵۱۲) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۵۱۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۴.
۵۱۴) تا حق را تثبیت کند، و باطل را از میان بردارد، هر چند مجرمان کراهت داشته باشند. سوره انفال، آیه ۸.
۵۱۵) اثبات الهداه، ج۳، ص۵۵۰؛ به نقل از سیمای مهدی در قرآن.
۵۱۶) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۸ / بلدالامین، ص۲۸۴.
۵۱۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۳ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۵۱۸) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۵۱۹) مفاتیح الجنان، زیارت سرداب / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۵۲۰) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۵۲۱) سوره نمل، آیه ۶۲.
۵۲۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۵۲۳) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۵۲۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۲.
۵۲۵) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۵۲۶) مفاتیح الجنان، دعا برای امام زمان / بحار الانوار، ج۹۲، ص۱۱۲.
۵۲۷) مفاتیح الجنان، دعای امام زمان / بحار الانوار، ج۹۲، ص۳۲۲..
۵۲۸) کتاب شریف کمال الدین، ج۲، ص۵۱۳ / بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۰.
۵۲۹) غیبت نعمانی، ص۲۴۶.
۵۳۰) مفاتیح الجنان، دعای بعد از زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱ و ج۹۹، ص۸۱.
۵۳۱) مفاتیح الجنان، زیارت سرداب / بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۲.
۵۳۲) غیبت نعمانی، ص۲۷۴.
۵۳۳) مفاتیح الجنان، زیارت سرّ من رأی / بحار الانوار، ج۹۹، ص۶۷.
۵۳۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۵.
۵۳۵) بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۷۰.
۵۳۶) سوره انعام، آیه ۸۹.
۵۳۷) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۲.
۵۳۸) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۸.
۵۳۹) مفاتیح الجنان، زیارت سرّ من رأی.
۵۴۰) بحار الانوار، ج۳۶، ص۱۹۳ / کمال الدین، ج۱، ص۳۰۵ / عیون الاخبار، ج۱، ص۴۰ / وسائل الشیعه، ج۱۶، ص۲۴۳.
۵۴۱) تاریخ موالید ائمه، ص۴۵ / به نقل از نجم الثاقب، ج۱، ص۱۰۵.
۵۴۲) بحار الانوار، ج۳۷، ص۲۱۳.
۵۴۳) سوره حدید، آیه ۱۷.
۵۴۴) اثبات الهداه، ج۳، باب ۳۲.
۵۴۵) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۵۴۶) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۵۴۷) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۵۴۸) مفاتیح الجنان، زیارت سرداب / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۵۴۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۲ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۵۵۰) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۲.
۵۵۱) بلد الامین، ص۱۸۷.
۵۵۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۹.
۵۵۳) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۵۵۴) مفاتیح الجنان، زیارت سرداب / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۲.
۵۵۵) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۵۵۶) دلائل الامامه، ص۲۷۲.
۵۵۷) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۸.
۵۵۸) سوره صف، آیه ۸.
۵۵۹) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۵۶۰) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۵۶۱) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۵۶۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۵۶۳) مفاتیح الجنان، دعای بعد از زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۵۶۴) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۵۶۵) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۵۶۶) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۷.
۵۶۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۵۶۸) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶ / مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۵۶۹) سوره مدثر، آیه ۸.
۵۷۰) سوره مدثر، آیه ۸.
۵۷۱) اصول کافی، ج۱، ص۳۴۳ و اثبات الهداه، ج۳، باب ۳۲.
۵۷۲) بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۲۷.
۵۷۳) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۸۰.
۵۷۴) سوره شوری:۴۱»
۵۷۵) اثبات الهداه، ج۳، ص۵۵۳؛ به نقل از سیمای مهدی در قرآن.
۵۷۶) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۷.
۵۷۷) بحار الانوار، ج۵۲، ص۹۹.
۵۷۸) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۳.
۵۷۹) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۵۸۰) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۵۸۱) بحار الانوار، ج۹۹، ص۶۹.
۵۸۲) دلائل الامامه، ص۲۵۴.
۵۸۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۷.
۵۸۴) بحار الانوار، ج۵۴، ص۲۱۳.
۵۸۵) یا کسی که دعای مضطرّ را اجابت می کند و گرفتاری را برطرف می سازد، و شما را خلفای زمین قرارمی دهد؛.... سوره نمل، آیه ۶۲.
۵۸۶) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۱ / بحار الانوار، ج۵۱، ص۴۸.
۵۸۷) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۵۸۸) بحار الانوار، ج۵۱، ص۲۴۰.
۵۸۹) بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۲۶.
۵۹۰) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه / بحار الانوار، ج۹۱، ص۳۱.
۵۹۱) سوره مدثر، آیه ۸.
۵۹۲) اصول کافی، ج۱، ص۳۴۳.
۵۹۳) مفاتیح الجنان، زیارت سرّ من رأی / بحار الانوار، ج۹۹، ص۶۹.
۵۹۴) حج: ۳۹.
۵۹۵) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه / بحار الانوار، ج۹۸، ص۳۷۳.
۵۹۶) بحار الانوار، ج۳۶، ص۳۴۸.
۵۹۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۳ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۵۹۸) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۸.
۵۹۹) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۲.
۶۰۰) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۶۰۱) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶ / مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۶۰۲) بحار الانوار،ج ۲۹.
۶۰۳) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶ / مصباح کفعمی، ص۴۹۵.
۶۰۴) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۶۰۵) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه / بلد الامین، ص۱۵۸.
۶۰۶) خداوند فقط می خواهد پلیدی و گناه را از شما اهل بیت دور کند و کاملاً شما را پاک سازد». سوره احزاب، آیه ۳۳.
۶۰۷) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه / بحار الانوار، ج۹۱، ص۳۱.
۶۰۸) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه / بحار الانوار، ج۹۸، ص۳۷۳.
۶۰۹) مفاتیح الجنان، زیارت سرّ من رأی / بحار الانوار، ج۹۹، ص۶۷.
۶۱۰) مفاتیح الجنان، زیارت سرّ من رأی.
۶۱۱) بحار الانوار، ج۹۹، ص۶۷.
۶۱۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۶۱۳) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۰.
۶۱۴) اثبات الوصیه، ص۲۶۷.
۶۱۵) بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۲۹ / کمال الدین، ج۲، ص۶۴۷.
۶۱۶) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۶۱۷) مفاتیح الجنان، زیارت روز جمعه.
۶۱۸) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۶۱۹) بحار الانوار، ج۹۹، ص ۹۲.
۶۲۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۵.
۶۲۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۲.
۶۲۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۹.
۶۲۳) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۷۱ / احتجاج، ج۲، ص۴۹۲.
۶۲۴) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۸.
۶۲۵) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه.
۶۲۶) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۶۲۷) امالی شیخ صدوق، ص۳۰۰.
۶۲۸) مفاتیح الجنان، دعای عدیله.
۶۲۹) مفاتیح الجنان، زیارت جامعه کبیره / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۳۱.
۶۳۰) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۱۵.
۶۳۱) بحار الانوار، ج۸۳، ص۴۳.
۶۳۲) کمال الدین، ص۳۷۸.
۶۳۳) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۶۳۴) مفاتیح الجنان، صلوات برای حضرت / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۶۳۵) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۴۷ / بحار الانوار، ج۳۸، ص۴۴.
۶۳۶) کمال الدین، ص۳۸۴ / بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۳.
۶۳۷) و کسی را که خداوند خونش را حرام شمرده، نکشید، جز بحق! و آن کس که مظلوم کشته شده، برای ولیش سلطه (و حق قصاص) قرار دادیم؛... سوره اسراء، آیه ۳۳.
۶۳۸) مفاتیح الجنان، زیارت ائمه سرّ من رأی.
۶۳۹) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.
۶۴۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۴.
۶۴۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۵ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۶۴۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص.
۶۴۳) بحار الانوار، ج۷۴، ص۳۰۰.
۶۴۴) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۱.
۶۴۵) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۴۷.
۶۴۶) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۵۸ / اصول کافی، ج۱، ص۳۲۱.
۶۴۷) بلد الامین، ص۲۸۶؛ همچنین در ذیل آیه ۷۵ سوره مریم، در اصول کافی روایاتی آمده که موعود، مهدی صاحب الزمان (علیه السلام) است.
۶۴۸) مفاتیح الجنان، زیارت امام زمان / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۱.
۶۴۹) بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۰۱.
۶۵۰) سوره بقره، آیه ۱۵۷.
۶۵۱) بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۱۷.
۶۵۲) مفاتیح الجنان، دعا برای امام زمان.
۶۵۳) الغیبه شیخ طوسی، ص۴۷۱.
۶۵۴) بگو: «آیا هیچ یک از معبودهای شما، به سوی حق هدایت می کند؟! بگو: تنها خدا به حق هدایت می کند! آیا کسی که هدایت به سوی حق می کند برای پیروی شایسته تر است، یا آن کس که خود هدایت نمی شود مگر هدایتش کنند؟ شما را چه می شود، چگونه داوری می کنید؟!» سوره یونس، آیه ۳۵.
۶۵۵) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۶۵۶) مفاتیح الجنان، زیارت سرداب / بلد الامین، ص۲۸۶ / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۶۵۷) ﴿إِنَّما یرِیدُ الله لِیذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَیطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً﴾؛ سوره احزاب، آیه ۳۳.
۶۵۸) مفاتیح الجنان، زیارت روز جمعه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۱۵.
۶۵۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۳.
۶۶۰) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۶۶۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۳۳.
۶۶۲) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۶۶۳) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / الاقبال، ص۲۹۷ / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۶۶۴) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۶۶۵) غیبت شیخ طوسی، ص۲۲۳ / بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۱۴.
۶۶۶) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۶۶۷) مفاتیح الجنان، دعای افتتاح / تهذیب، ج۳، ص۱۱۰.
۶۶۸) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۳.
۶۶۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۷ / بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۱۷.
۶۷۰) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۸.
۶۷۱) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه / بلد الامین، ص۱۵۸ / بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۴۵.
۶۷۲) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۶۷۳) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۶۷۴) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۶۷۵) بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۱۵.
۶۷۶) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۶۷۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۴.
۶۷۸) بحار الانوار، ج۲۵، ص۶ / منتخب الاثر، ص۷.
۶۷۹) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین.
۶۸۰) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۶۸۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۳ / غیبت نعمانی، ص۱۸۷ / اصول کافی، ج۱، ص۳۴۳.
۶۸۲) تفسیر سیاری، المعجم.
۶۸۳) بلد الامین، ص۱۸۷.
۶۸۴) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۷.
۶۸۵) اصول کافی، ج۱، ص۳۳۸.
۶۸۶) دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۶۸۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۳ / بلدالامین، ص۲۸۶.
۶۸۸) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۶۸۹) و نعمت های آشکار و پنهان خود را به طور فراوان بر شما ارزانی داشته است؟!.... سوره لقمان، آیه ۲۰.
۶۹۰) کمال الدین، ج۲، ص۶۳۸.
۶۹۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۶.
۶۹۲) مفاتیح الجنان، دعا برای امام زمان / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۴.
۶۹۳) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۱.
۶۹۴) خدا از بنی اسرائیل پیمان گرفت. و از آن ها، دوازده نقیب [= سرپرست] برانگیختیم... سوره مائده، آیه ۱۲.
۶۹۵) بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۶۳.
۶۹۶) مفاتیح الجنان، زیارت سرداب / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۲.
۶۹۷) با اقتباس از آیه شریفه: «یرِیدُونَ أَن یطْفِوا نُورَ الله بِأَفْوَاهِهِمْ وَیأْبَی الله إِلآَّ أَن یتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ کَرِهَ الْکافِرُونَ»؛ سوره توبه، آیه ۳۲.
۶۹۸) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱.
۶۹۹) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۷۰۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۹۶.
۷۰۱) سوره زمر، آیه ۶۹.
۷۰۲) نجم الثاقب، ص۹۶.
۷۰۳) نجم الثاقب.
۷۰۴) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۵۴.
۷۰۵) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۷۰۶) مفاتیح الجنان، زیارت روز جمعه / جمال الاسبوع، ص۳۷.
۷۰۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۷۰۸) ﴿یرِیدُونَ لِیطْفِوا نُورَ الله بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ کَرِهَ الْکافِرُونَ﴾ «آنان می خواهند نور خدا را با دهان خود خاموش سازند؛ ولی خدا نور خود را کامل می کند هر چند کافران خوش نداشته باشند!» سوره صف، آیه ۸.
۷۰۹) اصول کافی، ج۱، ص۴۳۲.
۷۱۰) دلائل الامامه، ص۱۸۳.
۷۱۱) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۵.
۷۱۲) بحار الانوار، ج۵۱، ص۴۹.
۷۱۳) سوره اعراف، آیه ۱۲۸. در باره آیه ۵ سوره قصص نیز روایاتی در این زمینه وارد شده است.
۷۱۴) اصول کافی، ج۱، ص۴۰۷؛ به نقل از سیمای مهدی در قرآن.
۷۱۵) بحار الانوار، ج۳۷، ص۲۱۳.
۷۱۶) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۹.
۷۱۷) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۷۱۸) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه / بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۱.
۷۱۹) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۹۱.
۷۲۰) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۸.
۷۲۱) سوره فجر، آیات ۱ تا ۳.
۷۲۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۶۸.
۷۲۳) مفاتیح الجنان، زیارت سرداب / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۷۲۴) و به هر سو رو کنید، خدا آنجاست!... سوره بقره، آیه ۱۱۵.
۷۲۵) احتجاج طبرسی، ج۱، ص۲۴۰؛ بحار الانوار، ج۹۳، ص۱۱۸.
۷۲۶) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / اقبال، ص۲۹۷.
۷۲۷) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۷۲۸) مفاتیح الجنان، دعای توسل / بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۴۷.
۷۲۹) بحار الانوار، ج۵۱، ص۱۵۱.
۷۳۰) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۵.
۷۳۱) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۷۳۲) بحار الانوار، ج۵۸، ص۳۹.
۷۳۳) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه به امام زمان (علیه السلام).
۷۳۴) سوره نور، آیه ۵۵.
۷۳۵) اثبات الهداه، باب ۳۲؛ به نقل از سیمای مهدی در قرآن.
۷۳۶) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین.
۷۳۷) بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۷۳۸) بحار الانوار، ج۹۹، ص۹۵.
۷۳۹) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر
۷۴۰) بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۷۴۱) بحار الانوار، ج۹۹، ص۸۴.
۷۴۲) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر.
۷۴۳) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۱.
۷۴۴) مفاتیح الجنان، زیارت آل یاسین / بحار الانوار، ج۹۱، ص۴.
۷۴۵) مفاتیح الجنان، زیارت سرداب / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۱.
۷۴۶) مفاتیح الجنان، دعای افتتاح.
۷۴۷) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۷۴.
۷۴۸) مفاتیح الجنان، دعای ندبه / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۰۶.
۷۴۹) سوره رعد، آیه ۷.
۷۵۰) اصول کافی، ج۱، ص۱۹۳.
۷۵۱) مفاتیح الجنان، اعمال روز جمعه.
۷۵۲) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۷۱.
۷۵۳) خداوند فقط می خواهد پلیدی و گناه را از شما اهل بیت دور کند و کاملاً شما را پاک سازد. سوره احزاب، آیه ۳۳.
۷۵۴) مفاتیح الجنان، دعای استغاثه به حجّه (علیه السلام) / بحار الانوار، ج۹۹، ص۲۴۵.
۷۵۵) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۷۳ / دلائل الامامه، ص۲۷۱.
۷۵۶) غیبت شیخ طوسی، ص۴۷۷.
۷۵۷) نهج البلاغه، فصل غرائب کلامه / بحار الانوار ج۵۱، ص۱۱۳.
۷۵۸) مفاتیح الجنان، زیارت صاحب الامر / بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۱۶.
۷۵۹) نجم الثاقب، ج۱، ص۱۷۴.
۷۶۰) امالی شیخ طوسی، ص۱۵۵.
۷۶۱) سوره معارج، آیه ۲۶.
۷۶۲) بحار الانوار، ج۹۹، ص۶۹؛ مفاتیح الجنان، زیارت ائمه سرّمن رأی.
۷۶۳) مفاتیح الجنان، دعای ندبه.

دانلودها دانلودها:
رتبه رتبه:
  ۱ / ۳.۰
نظرات
بدون نظرات

نام: *
كشور:
ايميل:
متن: *
بررسی کاربر: *
إعادة التحميل
 
شبكة المحسن عليه السلام لخدمات التصميم